Selected Poems of Fahmida Riaz فمہیدہ ریاض کی منتخب نظمیں

فمہیدہ ریاض (1946 – 2018) کی منتخب نظمیں

فہمیدہ ریاض سنہ 1946 کے برطانوی ہند  (برٹش  انڈیا )  میں اُتّر پردیش کے شہر میرٹھ کے ایک ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ تقسیم ِ ہند کے بعد یہ کنبہ پاکستان  آیا  اور   سندھ کے شہر حیدرآباد میں آن بسا۔ فہمیدہ کے والد ریاض الدین احمد  پاکستان  آنے  کے  بعد  صوبہ سندھ کے محکمہ ءِ تعلیم سے وابستہ تھے اور سندھ کے سکولوں میں جدید تعلیمی نظام کے لیے کام کر رہے تھے۔ جب فہمیدہ چار برس کی تھیں تو   سنہ 1950 میں اُن کے والد اِس دنیا سے چل بسے اور فہمیدہ اور اِن کی بہن نجمہ کو والدہ نے پالا پوسا۔ فہمیدہ نے فارسی، سندھی اور اردو ادب کے بارے میں اپنے لڑکپن میں سیکھا۔ فہمیدہ نے 15 برس کی عمر میں سنہ 1961 میں اپنی پہلی نظم لکھی جسے احمد ندیم قاسمی نے اپنے ادبی جریدے فنون میں لاہور  سے  چھاپا۔

فہمیدہ ریاض نے سنہ 1966 میں بی۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے ملازمت شروع کی۔سنہ 1967 میں فہمیدہ ریاض نے گھر والوں کی پسند سے شادی کی۔ شادی کے دو ماہ بعد اُن کی شاعری کا پہلا مجموعہ پتھر کی زبان کراچی کے مشہور اردو ناشر ملک نورانی کے اشاعتی ادارے مکتبہ ءِ دانیال نے چھاپا۔ شادی کے بعد وُہ شوہر کے ساتھ لندن چلی گئیں جہاں اُنہوں نے فلم سازی میں ایک ڈپلومہ حاصل کیا اور بی۔بی۔سی۔ ریڈیو  کی  اُردو  سروس  میں ملازمت اختیار کی۔ اِس شادی سے ایک بیٹی، سارا ہاشمی پیدا ہوئی ۔ یہ شادی زیادہ دیر نہ چل سکی اور معاملہ طلاق تک پہنچا۔ قیاس ہے کہ بیٹی کو مطلقہ شوہر نے اپنے پاس رکھا اور اب سارا ہاشمی امریکہ میں قیام پذیر ہیں ۔ 

سنہ  1973  میں  فہمیدہ  ریاض  واپس  پاکستان  آ  گئیں۔  اُن  کا  دوسرا  شعری  مجموعہ  بدن  دریدہ   سنہ  1973  ہی  میں  کراچی  سے  شائع  ہؤا    جس کی نظموں میں ایک نئی اور پُر اعتماد شاعرہ کی جھلک نظر آئی۔ اِس مجموعے میں نظموں کے موضوعات کا انتخاب اپنی جراءت میں باغیانہ حدوں کو چھوُ رہا تھا اور دوسری طرف الفاظ کا ماہرانہ چُناؤ اخلاق اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک نئی اور جارہانہ زبان کو جنم دے رہا تھا جسے اِس سے پہلے اردو شاعری میں کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ اِس مجموعے کی بہت سی نظموں مثلاً گڑیا، مقابلہ ءِ حُسن اور اقلیمہ نے پاکستان کے ادبی ماحول کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اِس نئی شعری روایت نے پاکستان میں بہادر خواتین ادیبوں اور شاعرات کی ایک پوری کھیپ کو متاءثر کیا اور اِن سب خواتین لکھاریوں کی جد و جہد کو مزید جِلا بخشی۔ اِن پاکستانی عورتوں کی جنگ عورت کی آزادی کے لیے تھی۔ یہ لڑائی پاکستانی عورت کے معاشرتی مقام کے نئے سرے سے تعین کے بارے میں تھی اور اِس محاذ پہ فہمیدہ ریاض اُن کی ایک دلیر ساتھی بن کے اُبھریں ۔ فہمیدہ ریاض کا نام ایک استعارہ بن رہا تھا۔ اِن نئی لکھاری عورتوں میں سندھی شاعرہ عطیہ داؤد، پنجابی شاعرہ نسرین انجم بھٹی، اردو نثری نظم کی باغی شاعرہ سارا شگفتہ، افسانہ نگاروں میں فرخندہ لودھی، جمیلہ ہاشمی، ناول نگاروں میں زاہدہ حِنا  (نہ جنوں رہا، نہ پری رہی) اور بہت سے دوسرے نام شامل ہیں۔

یہ  سنہ  ستّر  کی  دہائی  کا  آغاز  تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی انقلابی سوچ رنگ لا چکی تھی اور ملک کے نوجوانوں میں ایک سیاسی بیداری جنم لے چکی تھی۔ فہمیدہ ریاض کے سیاسی نظریات بائیں بازو کی سوشلسٹ مارکسسٹ سوچ کی طرف مائل تھے اور وُہ مارکس کے نظام ِ معیشت، انسانی برابری، انسانی آزادی اور سرمائے کو شکست دے کر عوام کو خود مُختار بنانے کی حامی تھیں۔ اِسی جد و جہد کو آگے بڑھاتے ہوئے اور چھوٹے صوبوں کے سیاسی حقوق کے لیے لڑتے ہوئے اُن کی ملاقات ایک سندھی مارکسسٹ سیاسی کارکن ظفر علی اُجّن سے ہوئی جو پاکستان پیپلز پارٹی کے رُکن اور بعد میں بے نظیر بھٹو کے ایک قریبی ساتھی کے طور پر اُبھرے۔ کیونکہ فہمیدہ ریاض اور ظفر علی اُجّن کے سیاسی نظریات بہت حد تک مِلتے جُلتے تھے اِس لیے دونوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اِس شادی سے فہمیدہ کے دو بچّے پیدا ہوئے، بڑی بیٹی ویرتا علی اُجّن اور چھوٹا بیٹا کبیر علی اُجّن جو بعد میں جوانی میں سمندر میں تیرتے ہوئے فوت ہو گیا ۔

Zafar Ali Ujjanظفر  علی  اُجّن

فہمیدہ اور ظفر نے مِل کر ایک رسالہ آواز نکالا جو عوام میں سیاسی بیداری پھیلانے کے لیے مضمون، انقلابی شاعری کے تراجم وغیرہ شائع کرتا تھا۔ شاعرہ عشرت آفرین نے بھی کالج کے زمانے میں اِس رسالے کے لیے کام کیا۔ سنہ 1977 میں فہمیدہ کا تیسرا شعری مجموعہ دھوپ شائع ہؤا جس کی نظمیں اکیلا کمرہ اور روٹی، کپڑا اور مکان مارشل لاء کے خلاف اور نئی سیاسی بیداری کے بارے میں تھیں۔      جب بھٹو حکومت کا تختہ اُلٹا گیا اور جرنیل ضیاءالحق نے مارشل لاء نافذ کیا تو سنہ 1981 میں رسالہ آواز کی اشاعت پر پابندی لگا دی گئی۔ فہمیدہ اور اُن کے شوہر پر پاکستان سے غدّاری کا مقدمہ قائم کیا گیا جس کی کچھ پیشیاں بھی فہمیدہ نے بھُگتیں۔ ظفر کو قید کر لیا گیا اور اِس سے پہلے کہ فہمیدہ بھی حراست میں لے لی جاتیں، کچھ ہمدرد دوستوں کی مدد سے فہمیدہ، اپنے دونوں بچوں ویرتا اور کبیر اور اپنی چھوٹی بہن نجمہ کے ساتھ بھارت مشاعرے میں شرکت کے بہانے سے پاکستان سے نکلنے اور دہلی، بھارت پہنچنے میں کامیاب ہو گئیں۔ پنجابی شاعرہ امرتا پریتم نے اندرا گاندھی سے سفارش کی اور یوں فہمیدہ کو بھارت میں سیاسی پناہ مل گئی۔ پاکستان میں اُن کے شوہر جرنیل ضیاء کی قید میں تھے۔ بعد ازاں بین الاقوامی سیاسی دباؤ کے بڑھنے پر جرنیل ضیاء کو ظفر اُجّن کو بھی رہا کرنا پڑا اور وُہ بھی بھارت آ گئے۔ فہمیدہ کے کچھ رشتے دار بھارت میں تھے اور اُنہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں ملازمت مل گئ۔ اپنی جلا وطنی کے دوران فہمیدہ کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے۔ کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے ایک طویل نظم ہے جس میں پاکستان پر جرنیل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے زہریلے اثرات کا بیان ہے۔ اپنا جرم ثابت ہے اور ہم رکاب دیگر مجموعے تھے جو جلاوطنی میں چھپے۔ یہ کنبہ سات برس جلا وطن رہا اور جرنیل ضیاء کے طیارہ حادثے میں مرنے کے بعد ہی سنہ 1988 میں پاکستان واپس آ سکا جہاں اِن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ 

پاکستان آنے کے بعد سنہ 1988 میں فہمیدہ ریاض کی سنہ 1967 سے لے کر سنہ 1988 تک کی شاعری کو ایک کلیات کی صورت میں بہ عنوان میَں مٹّی کی موُرت ہوُں شائع کیا گیا۔ سنہ 1999 میں آدمی کی زندگی کے عنوان سے اُن کی سیاسی جد و جہد سے متعلق نظمیں چھاپی گئیں۔ سنہ 2011 میں سنگ ِ میل پبلی کیشنز لاہور نے اُن کی کلیات سب لعل و گہر کے عنوان سے شائع کیں جس میں سنہ 1967 س لے کر سنہ 2011 تک کا کلام شامل تھا اور یہ کلیات ادبی ویب سائٹ ریختہ پر الیکڑانک کتاب (ای۔ بُک ) کے طور پر مفت پڑھی جا سکتی ہے۔ کچھ سالوں سے وُہ شدید علیل تھیں جس کی وجہ سے اُن کا فیس بُک اکاؤنٹ بھی خاموش ہو چکا تھا۔ آخری چند سالوں میں ایک نیا شعری مجموعہ موسموں کے دائرے میں تیار کیا جا رہا تھا مگر اُنہیں اِسے مکمل کرنے کی مہلت نہ مل سکی۔ اُن کے جانے سے جدید اُردو شاعری اور پاکستانی شاعری ایک اہم اور دلیر آواز سے محروم ہو گئی  ۔

01 - Achaa Dil-01J02 - Achaa Dil-02J03 - Baithaa Hai-01J04 - Baithaa Hai-02J05 - Baithaa Hai-03J06 - Kuch Loag-AJ07 - Kuch Loag-BJ

08 - Kuch Loag-CJ09 - Kuch Loag-DJ10 - Akhri Baar-01J11 - Akhri Baar-02J12 - Hawks Bay-01J13 - Hawks Bay-02J

17 - Gayyaa-01J

18 - Gayyaa-02J19 - Akaylaa Kamraa-01J

19 - Akaylaa Kamraa-02J

19 - Akaylaa Kamraa-03J

19 - Akaylaa Kamraa-04J

20 - PooraChand Select001aJ

20 - PooraChand Select001bJ20 - PooraChand Select002aJ

20 - PooraChand Select002bJ

20 - PooraChand Select003 J20 - PooraChand Select004JAik Larrkee Say -01J

Aik Larrkee Say -02J

Aik Larrkee Say -03J

Aik Larrkee Say -04J

2018 November Zafar Ali Ujjan Lahore

نومبر  2018  میں  فہمیدہ  ریاض  کی  وفات  کے  بعد لی گئی  ظفر علی اُجّن کی ایک تصویر