ہونے اور نہ ہونے کا غیبی موسم
تحریر طلعت افروز
سرمد صہبائی کی نظم “ملاقات” سے جُڑی کیفیت کے بارے میں طلعت افروز کا تجزیہ
سرمد صہبائی اپنی نظموں کے مجموعے پل بھر کا بہشت کی ایک خوبصورت نظم ’’ملاقات ‘‘ میں کہتے ہیں
ملاقات
دروازے پر کون کھڑا ہے ؟
عمروں کی تنہائی میں لیٹی عورت نے
پل بھر سوچا
کون ہے ۔ ۔ ۔ شائد و ُہ آیا ہے
اِک لمحے کو اُس نے اپنی دہلیزوں پر
دریا ، بادل اور ہَوا کو رُکتے دیکھا
خواہش کی عُریاں بیلوں کو
اپنے دِل کی محرابوں پر جُھکتے دیکھا
اُس کے جسم کے اندر جاگے سُرخ پرندے
کمرے میں یکدم جیسے سورج دَر آیا
کیا یہ تم ہو . . . ؟ کیا یہ تم ہو . . . ؟
پیاسے ہونٹ پہ اُس کے نام کا رَس بھر آیا
او ہنس راج ، مِرے رنگ رَسئیے
گہری نیند میں کِھلنے والے سورج مُکھئیے
کیا یہ تم ہو . . . ؟
عمروں کی تنہائی میں لیٹی عورت نے
دروازے کو کھول کے دیکھا
دوُر دوُر تک ہونے نہ ہونے کا اِک غیبی موسم تھا
سرمد صہبائی ۔ 2008 ۔
جب کوئی ہم سے بچھڑ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ اکثر ایک حتّمی اور قائم رہنے والا اَمر ہی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ تو بچھڑنے والا ہمارے اندر بستے اپنے ایک جادوئی عکس کو ظاہر کر دیتا ہے۔ محبّت کے اوّلیں دنوں میں ، جب ہم سفر ہمارے ساتھ ہوتا ہے ، ہمارے اندر بستا یہ ہم زاد نما عکس اپنا آپا نہیں دِکھاتا۔ جدائی کے عمل سے گزرنے پر ہمارے اندر بستی یہ موجودگی ، یہ غیبی دنیا اپنے اوپر سے پردہ اُٹھاتی ہے۔
یہ ایک غیر مرئی جہان ہے جس میں ہمارا ساتھی ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی! اُس سے باتیں ہو سکتی ہیں اور اُس کے منہ سے اپنی مرادیں، اپنی آرزو ُئیں، اپنی تمنّائیں اپنی مرضی کے لفظوں میں سُنی جا سکتی ہیں۔ اُس سے گِلے شِکوے ہو سکتے ہیں ۔ اُس کے حُسن کا نظّارہ کیا جا سکتا ہے۔ اُس کے ساتھ گُزرا کوئی لمحہ پھر سے گزارا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک خلوت کے حصار میں ہم بیٹھے اُسے تکے جا رہے ہیں۔ اُس کی ذات کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے اور ہم مسحور ہوئے جا رہے ہوتے ہیں۔ سرمد ؔ صہبائی نے اپنے ابتدائی دنوں کی ایک شاہکار نظم استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوُں مَیں کے ایک بند میں اِس طرف اشارہ کیا ہے
غَیب کے شہروں سے آتی ہے ہَوا
عکس سا اُڑتا ہے تیرے جسم کا
وصل کے دَر کھولتی ہیں انگلیاں
خون میں گُھلتا ہے تیرا ذا ئقہ
آتے جاتے موسموں کی اوٹ میں
تیرا چہرہ دیکھتا رہتا ہو ُں میَں
اِستعارے ڈھوُنڈھتا رہتا ہو ُں میَں
سرمد صہبائی ۔ 1976 ۔