The mood in Sarmad Sehbai’s poem “Mulaaqaat”

Sarmad Sehbai New York 1970's 1MB JJ

ہونے اور نہ ہونے کا غیبی موسم

تحریر   طلعت افروز

سرمد صہبائی کی  نظم  “ملاقات”  سے   جُڑی  کیفیت  کے  بارے  میں  طلعت افروز  کا  تجزیہ

سرمد صہبائی اپنی نظموں کے مجموعے پل بھر کا بہشت کی ایک خوبصورت نظم ’’ملاقات ‘‘ میں کہتے ہیں

ملاقات

دروازے پر کون کھڑا ہے ؟

عمروں کی تنہائی میں لیٹی عورت نے

پل بھر سوچا

کون ہے ۔ ۔ ۔ شائد و ُہ آیا ہے

اِک لمحے کو اُس نے اپنی دہلیزوں پر

دریا ، بادل اور ہَوا کو رُکتے دیکھا

خواہش کی عُریاں بیلوں کو

اپنے دِل کی محرابوں پر جُھکتے دیکھا

اُس کے جسم کے اندر جاگے سُرخ پرندے
کمرے میں یکدم جیسے سورج دَر آیا

کیا یہ تم ہو . . . ؟ کیا یہ تم ہو . . . ؟

پیاسے ہونٹ پہ اُس کے نام کا رَس بھر آیا

او ہنس راج ، مِرے رنگ رَسئیے

گہری نیند میں کِھلنے والے سورج مُکھئیے

کیا یہ تم ہو . . . ؟

عمروں کی تنہائی میں لیٹی عورت نے

دروازے کو کھول کے دیکھا

دوُر دوُر  تک ہونے نہ ہونے کا اِک غیبی موسم تھا

سرمد صہبائی ۔ 2008 ۔

جب کوئی ہم سے بچھڑ جاتا ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ اکثر ایک حتّمی اور قائم رہنے والا اَمر ہی ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ تو بچھڑنے والا ہمارے اندر بستے اپنے ایک جادوئی عکس کو ظاہر کر دیتا ہے۔ محبّت کے اوّلیں دنوں میں ، جب ہم سفر ہمارے ساتھ ہوتا ہے ، ہمارے اندر بستا یہ ہم زاد نما عکس اپنا آپا نہیں دِکھاتا۔ جدائی کے عمل سے گزرنے پر ہمارے اندر بستی یہ موجودگی ، یہ غیبی دنیا اپنے اوپر سے پردہ اُٹھاتی ہے۔

یہ ایک غیر مرئی جہان ہے جس میں ہمارا ساتھی ہوتا بھی ہے اور نہیں بھی! اُس سے باتیں ہو سکتی ہیں اور اُس کے منہ سے اپنی مرادیں، اپنی آرزو ُئیں، اپنی تمنّائیں اپنی مرضی کے لفظوں میں سُنی جا سکتی ہیں۔ اُس سے گِلے شِکوے ہو سکتے ہیں ۔ اُس کے حُسن کا نظّارہ کیا جا سکتا ہے۔ اُس کے ساتھ گُزرا کوئی لمحہ پھر سے گزارا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایک خلوت کے حصار میں ہم بیٹھے اُسے تکے جا رہے ہیں۔ اُس کی ذات کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہوتا ہے اور ہم مسحور ہوئے جا رہے ہوتے ہیں۔ سرمد ؔ صہبائی نے اپنے ابتدائی دنوں کی ایک شاہکار نظم استعارے ڈھونڈھتا رہتا ہوُں مَیں کے ایک بند میں اِس طرف اشارہ کیا ہے

غَیب کے شہروں سے آتی ہے ہَوا
عکس سا اُڑتا ہے تیرے جسم کا
وصل کے دَر کھولتی ہیں انگلیاں
خون میں گُھلتا ہے تیرا ذا ئقہ
آتے جاتے موسموں کی اوٹ میں
تیرا چہرہ دیکھتا رہتا ہو ُں میَں
اِستعارے ڈھوُنڈھتا رہتا ہو ُں میَں
سرمد صہبائی ۔ 1976 ۔

 

خیالوں کی اِس دنیا کی جڑیں ہمارے تحت الشعور میں پیوست ہوتی ہیں۔ اور تحت الشعور ہم سے ہم کلامی کے لئے خوابوں کا سہارا لیتا ہے۔ہمارا سب کونشس مائنڈ یا تحت الشعور بول نہیں سکتا لیکن شبیہوں اور متحرّک تصویروں کے ذریعے ہم سے غیر لفظی باتیں کرتا ہے اور یہ متحرّک تصویریں ہمیں اپنے خوابوں میں نظر آتی ہیں۔ سو یہ غیبی دنیا ہمارے خوابوں میں بھی ہمارے ساتھ ساتھ رہتی ہے۔

مجید امجد ؔ نے اپنی ایک نظم کب کے مَٹّی کی نیندوں میں کے ایک بند میں کیا خوب کہا ہے کہ

کب کے مَٹّی کی نیندوں میں سو بھی چکے و ُہ

میری نیندوں میں اب جاگنے والے

ابھی ابھی تو ، میری دنیا ، سوئی ہوئی تھی

اُن کی جاگتی آنکھوں کے پہرے میں

ابھی ابھی و ُہ یہیں کہیِں تھے

میرے خوابوں کی عمروں میں

ابھی ابھی اُن کے مٹیالے ابد کی ایک ذرا سی ڈلی گھُلی تھی

اِن میری آنکھوں میں

اور دکھائی دیئے تھے ، میری خودبیں بینائی میں

و ُہ سب ٹھنڈے ٹھنڈے سُکھ ، جو

اُن کے دِلوں کا اُنس اور پیار تھے

میرے حق میں

ابھی ابھی تو اِس میری بے فہمی کی فہمید میں تھا

یہ سب کچھ

اور اب میرے جاگنے میں سب کھو گئے

و ُہ میری نیندوں میں جاگنے والے

مجید امجدؔ۔ 28 اکتوبر ، 1970 ۔ ساہیوال ۔

کبھی کبھی غیب کی یہ دنیا اِس حد تک ذہن پر حاوی ہو جاتی ہے کہ مِیت کے نہ ہونے کے احساس کو اور بھی شدّت سے محسوس کروانے لگتی ہے۔ اُس کے نہ ہونے کی کمی بار بار کسک دیتی ہے اور شا ید اِسی کیفیت کے بارے میں عدیمؔ ہاشمی نے لکھا تھا کہ

یاد کر کے اور بھی تکلیف ہوتی تھی عدیمؔ

بھو ُل جانے کے سِوا اب کوئی بھی چارہ نہ تھا

بچّے اِس غیبی دنیا سے بڑے مانوس ہوتے ہیں ۔ اُن کا تخئیل حد درجہ قوی ہوتا ہے اور ہماری یہ دنیا بچّوں کو بھی دُکھ دینے سے نہیں چوُکتی۔ چناچہ بہت سے بچّے اپنا ایک خیالی دوست یا سہیلی بنا کر اُس سے گھنٹوں باتیں کر سکتے ہیں۔ جن لوگوں کے اندر کا بچّہ زندہ ہوتا ہے وُہ دُکھوں کے چُنگل سے فرار کے لئے اِس غائب نگری میں پناہ ڈھونڈ نے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مجید امجد ؔ کی ایک نظم میں ایک منظر بیان ہوتا ہے جہاں خدا آسمانوں سے دنیا میں اُتر آیا ہے اور چُپ چاپ کھڑا ایک غریب بچّی کو دیکھ رہا ہے۔ یہ ننھی سی بچّی بھی حقیقتوں کی دنیا سے نکل کر اپنے خیالوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی ہے اور اُس کے چہرے پر اُس کے دُکھ کی کتھا صاف پڑھی جا سکتی ہے

ننھی بھولی

ننھی بھولی، مَیلے مَیلے گالوں والی

بے سُدھ سی اِک بچّی

تیری جانب دیکھ رہی ہے ،

دیکھ اُس کی آنکھیں تیری توجّہ کی پیاسی ہیں

اُس کی نازک ، بے حِس ٹھوڑی کو اپنی انگلی

کی سنہری پور سے مَس تو کر، اور

اُس سے اِتنا تو پوچھ ، اچھّی بِلّو ! تو ُ کیوں چُپ ہے

اور جب و ُہ مُنہ پھیر کے اپنی آنکھیں اپنے

ہی چہرے پہ جھُکا لے

تو ُ ہی بڑھ کر اُس کے ماتھے کو اپنے

ہونٹوں سے لگا لے، ہاں ایسے ہی

کیوں ، اُس جھنجھیلو نے تجھ سے کہا کیا ؟

یہ کیا ؟ تیری آنکھیں بھیگ گئیں . . . ؟

کیوں . . . ؟

اُس نے تجھ سے کہا کیا ؟

ساتوں آسمانوں کے مالک

اِتنے پتلے دِل والے مالک ! ہم بھی روز

اِس چہرے کی کتھا سنتے ہیں

ہم تو کڑا کر لیتے ہیں جی

ایسے موقعوں پر

مجید امجدؔ۔ 6نومبر ، 1969 ۔ ساہیوال ۔

اِس نظر نہ آنے والی دنیا میں وقت گزارنا ایک طرح کی دشت نوردی ہے۔ اِس دنیا میں سفر کے لئے کوئی سمت متعین نہیں ہے۔ ہر طرف ریت ہی ریت ہے۔ باد ِ صر صر ایک ٹیلے سے ریت کو اُڑا اُڑا کر لے جاتی ہے اور کسی دوسری جگہ پر ٹیلہ بنا ڈالتی ہے۔ منظر اور پس منظر بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی اِس ویرانی کے سفر سے خوف بھی محسوس ہونے لگتا ہے۔ منیر ؔ نیازی لکھتے ہیں

رہتا ہے اِک ہراس سا قدموں کے ساتھ ساتھ

چلتا ہے دشت دشت نوردوں کے ساتھ ساتھ