Angaarey, Progressive Writers Movement, and a Pakistani History Reading List

Talat Afroze, PhD (Molecular Biology), Univ of Alabama at Birmingham, USA.

Published in 1931 from Lucknow, British India, by four young forward-thinking writers and immediately banned by the British Indian government, this collection of short stories (Angaarey) [1] launched the Progressive Writers Movement[2]. The top Urdu writers and poets of British India joined this powerful literary movement that changed the face of Urdu Literature and helped Indian and later Pakistani society transform itself from a medieval mindset to liberal and secular ideas in the 1930s, 1940s, and 1950s of the twentieth century. The central tenet of the Progressive Writers Movement was exposing the falsehoods and injustices hiding behind traditional social customs in Indian and later Pakistani society and make an effort to educate the public through progressive writings and poetry. The complete text of Angaarey [1] is available for free at the largest Urdu literature website “Rekhta” headquartered in the planned city of Noida near Delhi, India.

Another example of the persecution of Progressive Writers is the case of Hasan Nasir [10].
Hasan Nasir (1928-1960) hailed from Hyderabad, Deccan, India, was a grandson of Nawab Mohsin ul Mulk (founding member of All India Muslim League) and was a revolutionary Urdu poet belonging to the Progressive Writers Movement as well as being a vigorously active member of the Communist Party of Pakistan. He was a student leader at Osmania University, Hyderabad Deccan, India and organized protests in support of the Telangana Peasant Struggle. In 1947, Hasan Nasir received an invitation from the eminent progressive writer Sajjad Zaheer [8] and left India to come to Pakistan. He organized the poor peasants of Sindh in a manner similar to the Telangana Peasant Struggle. He mobilized the workers of Karachi port, Oil mills, Textile, and other mill workers to carry out a Marxist class struggle. He suggested that the Progressive Writers’ Association (Anjuman Tarraqi Pasand Mussanafin ) in Pakistan should create works of fiction to depict the struggle of the working class in Pakistan. In the mid-1950s, Qamar Yoorish [11], a Pakistani Labor Leader and Urdu short story writer from Lahore began writing stories about the problems of Pakistan’s working class.

After four years of political struggle in Pakistan (1947-1951), Hasan Nasir was arrested in the Rawalpindi Conspiracy case along with Faiz Ahmad Faiz and Sajjad Zaheer and spent six years in prison (1951 to 1957). In 1957, Pakistani authorities pardoned and deported him to India when Faiz, Sajjad Zaheer, and others were pardoned and released from jail. Hasan Nasir spent two years (1957-1958) in exile in Hyderabad, Deccan, India and secretly returned to Karachi, Pakistan in 1958 (the year of Pakistan’s first Martial Law). Hasan Nasir remained underground in Karachi and continued to organize the Worker-Peasant Movement in rural Sindh and mobilize industrial workers in Karachi. He was elected as Secretary of the Communist Party of Pakistan (Sindh branch) and was invited to the Central Committee of the Communist Party of Pakistan. Pakistani spy agencies informed Pakistan’s dictator General Ayub Khan about Hasan Nasir’s political activities that were uniting Pakistan’s working class in Karachi and Sindh. In 1960, another case was filed against Hasan Nasir and he was arrested.

It is alleged that Hassan Nasir was murdered by religious fanatics in 1960 inside Lahore Fort’s infamous underground prison. The Soviet press of the day alleged that he was killed in prison. When the Pakistani Human Rights Commission complained to the court about the incident, the court summoned Hasan Nasir’s mother from Hyderabad (Deccan), India and Nasir’s body was exhumed from Lahore’s Miani Sahib graveyard for identification. It was reported by the local press in Lahore that upon viewing the exhumed body, Hasan Nasir’s mother said that this was not the body of her son and that there was no resemblance between the body and her son.












A Poem about Zahid Dar . . . A Pakistani Modern Urdu Poet

طویل نظم : کچھ زاہد ڈار کے بارے میں ۔ ۔ ۔
شاعر : طلعت افروز

اگر آپ لاہور کی مال روڈ پر

ٹولنٹن مارکیٹ والے چوک سے

پرانی انارکلی کی اور دیکھیں

تو اُدھر وُہ پرانا گھر ہے

جہاں شروع شروع میں ناصر کاظمی رہا کرتے تھے

اور لیڈی میکلےگن ہائی سکوُ ل ہے

جہاں دلیپ کمار کی پہلی محبّت ، کامنی کوشل

سنہ 1932 سے لے کر سنہ 1943 تک

اور بعد میں فریدہ خانم کی بیٹیاں پڑھا کرتی تھیں

ہاں تو ٹولنٹن مارکیٹ چوک سے

اگر آپ نئی انارکلی کی طرف نظر دوڑائیں

تو آپ کو ہر اتوار کی صبح اور باقی کئی دنوں کو بھی

بائیبل بُک سوسائیٹی کے باہر فٹ پاتھ پر لگے

پرانی کتابوں کے سٹالوں پر

جدید یورپی ادب، عالمی سیاست، تاریخ اور فلسفے کی

سستے داموں بِکتی پرانی کتابوں کی کھوج میں

ایک دُبلا پتلا اور بڑی بڑی سوچتی آنکھوں والا شخص دکھائی دے گا

یہ زاہد ڈار ہے ۔ ۔ ۔

شُنید ہے کہ اُسے ایک لڑکی سے پیار ہو گیا

اُس لڑکی نے کہا ۔ ۔ ۔

زاہد، کوئی نوکری ڈھونڈو اور میرے گھر والوں سے رشتہ مانگو

زاہد نے کہا

تم کیوں نوکری نہیں ڈھونڈتیں؟

کیا تم میرے پیار میں اِتنا بھی نہیں کر سکتیں؟

ضروری تو نہیں کہ میَں ہی نوکری کروُں ۔ ۔ ۔

اُس کے ابّا لدھیانہ میں سوشلسٹ لیڈر تھے

دوسری عالمی جنگ میں

ہندوستان کے نوجوانوں کی جبری بھرتیوں کے خلاف بولنے پر

برطانوی سامراج نے قید کر دیا تھا

وُہ سنہ 1945 میں جیل ہی میں وفات پا گئے تھے

اور اُسی سال زاہد کی آپا کو فلسفے میں ایم۔ اے۔ کرنے پر

ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کی سرکاری نوکری مِل گئ تھی

جس سے وُہ تمام بہن بھائیوں کو پالنے میں لگ گئیں

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد

یہ کنبہ کرشن نگر لاہور میں آن بسا

زاہد نے اسلامیہ سکول سے میٹرک کر لیا

گورنمنٹ کالج میں، سنہ 1952 میں

انیس ناگی اور صفدر میر اُس کے دوست بنے

ایف۔ اے۔ کا امتحان نہ دے کر

سنہ 1954 میں زاہد گورنمنٹ کالج سے نکل آیا

گھر والوں نے بہتیری کوششیں کی

کہ زاہد کوئی کام کر لے

مظفّرگڑھ کے محکمہ خوراک میں کلرکی سے لے کر

کراچی کی شیر شاہ کالوُ نی میں دوائیاں پیَک کرنے تک

ہر جگہ وُہ زیادہ دیر نہ ٹِک سکا

آخری نوکری سے سنہ 1958 میں وُہ

بیماری کی حالت میں لاہور لَوٹا

تھک ہار کر بڑی بہن نے سمجھوتہ کر لیا ۔ ۔ ۔

جہاں بیچاری آپا والد کی وفات کے بعد سے

چھوٹے بہن بھائیوں کو پال رہی تھیں

اپنی سرکاری نوکری سے

وہیِں پلے پلائے زاہد کی بھی کفالت کرنے لگیِں ۔ ۔ ۔

زاہد کو کتابیں پڑھنے کا خبط تھا

اور اپنی ڈائری میں نظمیں لکھنے کی عادت تھی

شروع شروع میں وُہ پابند نظمیں تھیں

جو بعد میں آزاد نظمیں اور پھر نثری نظمیں بنتی چلی گئیں

سنہ 1958 سے وُہ صفدر میر کے ساتھ

پاک ٹی ہاؤس اور کافی ہاؤس جانے لگا

جہاں اُس کی دوستی انتظار حسین اور ناصر کاظمی سے ہوئی

صفدر میر نے زاہد کی ڈائری کی کچھ نظمیں

محمّد حسن عسکری کے رسالے سات رنگ میں

مادھو کے قلمی نام سے چھپوا دیِں

اُن نظموں کی دھوُم مچ گئی

ناصر کاظمی نے سب کو مادھو کی اصلیت بتا دی

پھر زاہد نے اصلی نام سے وُہ نظمیں

سویرا میں چھپوائیں

زاہد کو ہمیشہ سے عورتیں پسند تھیِں

البتّٰہ کوئی ذہنی خلفشار ۔ ۔ ۔

کوئی سب کلینکل ڈیپریشن ۔ ۔ ۔

اُسے آگے بڑھنے اور ساتھی اپنانے سے روکتا رہا

اُس لڑکی سے بات کو آگے نہ بڑھا سکنے پر

زاہد نے سنہ 1958 سے 1968 تک

دس قیمتی سال شراب نوشی کی نذر کر دیے

سنہ 1968 میں پاک ٹی ہاؤس کی ایک معروف شاعرہ

کشور ناہید اور اُن کے شوہر یوسف کامران نے

زاہد پر توجہ دینا شروع کی

یہ دونوں جب بھی رات گئے

اپنے کرشن نگر والے گھر کو جاتے ہوئے

زاہد کو نشے میں دھُت

مال روڈ پر بھٹکتا دیکھتے

تو اُسے اصرار کر کے گاڑی میں بٹھا لیتے

اپنے ساتھ گھر لے آتے اور

کھانا کھِلا کر اُس کے گھر چھوڑ آتے

کشور ناہید کی ہمدردی نے زاہد کو

شراب ترک کرنے پر راضی کر لیا

سویرا رسالے میں نظمیں چھپنے کے بعد سے

زاہد ڈار لاہور کے پرانی کتابوں کے بُک سٹالوں سے

کتابیں خرید کر پڑھتا رہا

اور اپنی ڈائری میں نظمیں لکھتا رہا

ہوتے ہوتے کرشن نگر والے گھر میں

زاہد کے کمرے میں

چھت تک کتابیں ہی کتابیں چھا گئیں

اور بڑے ہو چُکے بہن بھائیوں کے بچّے

زاہد کو میاں چچا کہہ کر پُکارنے لگے

زاہد ڈار دائروں میں گھوُمتی زندگی بسر کرتا رہا

کمرے سے پرانی کتابوں کی دکانوں تک

پھر پاک ٹی ہاؤس تک

پھر جیل روڈ پر انتظار حسین کی کوٹھی کے کتب خانے میں

پھر واپس کرشن نگر

اپنے کمرے میں اور کتابوں کے درمیان ۔ ۔ ۔

اُس نے لکھا تھا ۔ ۔ ۔

بے زاری کی اِنتہا اور خوشی کی اِنتہا

ہر طرف دائرے ہی دائرے ہیں

حقیقت دائروں کے سِوا اور کچھ بھی نہیں

نہ ہونے سے ۔ ۔ ۔ نہ ہونے تک

یہ ایک دائرہ ہے

درمیان میں موجودگی ہے

اور وُہ ایک خلاء ہے ۔ ۔ ۔

اب میَں اپنے خوابوں کے سہارے زندہ ہوُ ں

کچھ دیر پہلے میَں زندہ تھا

یا شاید یہ بھی ایک خواب ہے ۔ ۔ ۔

مارچ 21 سنہ 2022 ٹورونٹو میں ، زاہد ڈار کے گزر جانے کے ایک سال بعد لکھی گئی۔

حوالہ جات: جولائی سنہ 2009 میں جنگ کے انگریزی ایڈیشن میں چھپا فرح ضیاء صاحبہ کا زاہد ڈار سے لیا آخیری انٹرویو جو کہ انتظار حسین کی جیل روڈ پر واقع رہائش گاہ کے کتب خانے میں لیا گیا۔

زاہد ڈار کی نظم دائرہ میں سے منتخب سطور، صفحہ 13 مجموعہ تنہائی، سنگ ِ میل پبلی کیشنز، اشاعت سنہ 1988، لاہور، پاکستان۔

ذمہ دار پاکستانی ناشروں سے استدعا ہے کہ زاہد ڈار کی ڈائریوں کو اُن کے اہل ِ خانہ سے حاصل کریں اور اُن میں درج نظموں کو شائع کروائیں ، اردو ای۔بُک کی صورت میں بیچیں اور جدید اُردوُ شاعری پر تحقیق کرنے والے ایم۔ اے۔ ایم۔ فِل اور پی۔ ایچ۔ڈی کے طلباء کے لیے اور دیگر قارئین کے لیے مہیّا کریں۔ اگر اورئینٹل کالج لاہور، پاکستان کی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اُردوُ کے صدوُر، پاکستان میں اردو ادب کے ٹھیکیدار وفاقی اور صوبائی اداروں اور کشور ناہید صاحبہ کو احساس ہو جائے تو زاہد ڈار کی غیر مطبوعہ شاعری کو ایک جامع کُلّیات کی صورت میں شائع کر وانے کے لیے تگ و دو کریں۔ وگرنہ پہلے کی طرح ہر سال شہر شہر لٹریری فیسٹیول اور بُک فئیر لگوانے، اِن میں شمولیت والی اپنی وڈیوز کو وائرل کروانے اور محلّوں میں خانہ دار خواتین کی ڈالی ہوئی بچت کمیٹیوں کی طرح کمیٹیاں ڈال ڈال کر اپنے اپنے ادبی دھڑوں اور ادبی مافیا گروہوں کے مشاعرے کروانے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ وَ ما علینا الاالبلاغ ۔