تہہ در تہہ نثری نظم طلعت افروز

روُح کا ایک جنم سے دوُسرے جنم کا سفر

نثری نظم : تہہ در تہہ

شاعر : طلعت افروز

فرائڈ نے کہا تھا

ذات کی تین پرتیں ہیں

اِڈ/نفس جو نفسانی خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے

تحت الشعور میں رہتا ہے

اَور ضابطہ ءِ نشاط پر مبنی ہے

سوُپر ایِگو یا اَنا ءِ عُظمٰی

جو تحت الشعور میں جا گزیِں

ظابطہ ءِ اَخلاق پر مُنحصر

وُہ فُرقان ہے جو نیک اور بد کی تمیز کے لیے ہمیں بخشا گیا ہے

اور اَنا جو ہمارے شعور میں بستی ہے

ہماری شناخت متعیّن کرتی ہے

ہمارے نفس اور اَناءِ عُظمٰی کے درمیان ثالث ہے

اِس سیّارے پر جینے کی ایک درمیانی راہ نکالتی ہے

اور ضابطہ ءِ حقیقت پر کار فرما ہے

جب یونیورسٹیوں میں فلسفے کی تعلیم دی جاتی ہے

تو سِکھایا جاتا ہے کہ

انسان کی ذات میں تین آوازیں سُنائی دیتی ہیں

میَں ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔ اور وُہ

یہ تینوں آوازیں

ہمہ وقت

ہمارے اندر ایک دوسرے کے ساتھ مکالمہ جاری رکھے ہوئے ہیں

فزکس میں پڑھایا جاتا ہے کہ

خلاء نہ ہونے کا نام نہیں ہے

بلکہ خلاء میں ہر وقت نئے مادّے اور نئے اَینٹی مادّے کا فشار جاری ہے

کائنات پھیلتی چلی جا رہی ہے

نہ ہونے میں سے مادّہ اور ایَنٹی مادّہ جنم لیتے چلے جا رہے ہیں

جنم جنم کے لیے جوڑ دیے گئے جوڑوں کی طرح

زوج زوج ۔ ۔ ۔

روُح اور اُس کے جنم در جنم سفر کے حوالے سے کہا گیا ہے

کہ روُحیں جوڑوں میں پیدا ہوتی ہیں

یہ دو روُحیں سول میٹس / جنم جنم کے ساتھی ہیں

روُحوں کے یہ جوڑے ایک ہی شعاع کا حصّہ ہیں

روُحوں کے ہر جوڑے میں دونوں روُحوں کے خواص

اِک دوُجے سے مِلتے جُلتے بھی ہوتے ہیں

اَور کچھ لحاظ سے ایک دوُسرے کے قُطبیَن بھی

اُن کے کسی بھی معاملے میں مخالف رویّے

ٹکراؤ بھی پیدا کرتے ہیں ۔ ۔ ۔

سو اِس کائنات میں

ہماری ازلی شناخت کی پرتیں

تہہ در تہہ کھُلتی چلی جا رہی ہیں

ہم سب نفس، اَناءِ عُظمٰی، اور اَ نا میں بٹے ہوئے

مادّے اور ایَنٹی مادّے میں سے جنم لیتے ہوئے

میَں، تُم، اور وُہ کی اندرونی آوازوں میں باتیں کرتے ہوئے

اپنے اپنے جنم ساتھی سے جُدا کیے جا چکے ہیں

اور اِک دوُجے کی تلاش میں

جنم جنم سے بھٹک رہے ہیں

تہیں کھُلتی چلی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔

اکتوبر تا دسمبر سنہ 2024 لکھی گئ۔ ٹورونٹو۔

حوالہ جات

قطبیَن : ہمارے سیّارے میں مقناطیسیت ہے جس کی وجہ سے ایک قطب ِ شمالی ہے اور ایک قطب ِ جنوُبی ہے۔ دونوں قطب ایک دوسرے کا اُلٹ ہیں، مقناطیسی قوّت کی خاصیت کے اعتبار سے۔ اِس نظم میں قطبین سے مُراد ہے دو روُحوں کا کسی بھی سیاسی، اخلاقی، یا ادبی موضوع پر اختلاف ہونا جس میں ایک کی رائے شمال ہے تو

دوُسرے کی رائے جنوب ہے۔

A Reading List

  1. Personality Theory by Sigmund Freud describes the three aspects of the Self, namely, the Id, the Super Ego, and the Ego.
  2. Inner Speech (Stanford Encyclopedia of Philosophy)
    https://plato.stanford.edu/entries/inner-speech/
    Excerpt:
    “Several theorists (inferentialists) follow Ryle (1949 [2009]) in his claim that we often come to know what we are thinking by “overhearing”, or “eavesdropping” on our own silent monologues (1949 [2009: 165]). Hence, we come to know what we are thinking, or what we believe or desire, by drawing a kind of inference from the fact that we “hear” ourselves say something in inner speech.”

  3. Soul Mountain by Gao Xingjian has a passage where the hero of the novel talks about the three voices of Inner Speech studied in Philosophy, namely, I, You, and Him.
  4. A Brief History of Time by Stephen Hawking explains about Matter and Anti-Matter.
  5. Origin of the Soul by Walter Semkiw MD. Chapter 4 describes soul mates created as pairs and the concept of dipoles, namely, some likenesses and some differences in the personalities of the two soul mates.

A Poem about Zahid Dar . . . A Pakistani Modern Urdu Poet

طویل نظم : کچھ زاہد ڈار کے بارے میں ۔ ۔ ۔
شاعر : طلعت افروز

اگر آپ لاہور کی مال روڈ پر

ٹولنٹن مارکیٹ والے چوک سے

پرانی انارکلی کی اور دیکھیں

تو اُدھر وُہ پرانا گھر ہے

جہاں شروع شروع میں ناصر کاظمی رہا کرتے تھے

اور لیڈی میکلےگن ہائی سکوُ ل ہے

جہاں دلیپ کمار کی پہلی محبّت ، کامنی کوشل

سنہ 1932 سے لے کر سنہ 1943 تک

اور بعد میں فریدہ خانم کی بیٹیاں پڑھا کرتی تھیں

ہاں تو ٹولنٹن مارکیٹ چوک سے

اگر آپ نئی انارکلی کی طرف نظر دوڑائیں

تو آپ کو ہر اتوار کی صبح اور باقی کئی دنوں کو بھی

بائیبل بُک سوسائیٹی کے باہر فٹ پاتھ پر لگے

پرانی کتابوں کے سٹالوں پر

جدید یورپی ادب، عالمی سیاست، تاریخ اور فلسفے کی

سستے داموں بِکتی پرانی کتابوں کی کھوج میں

ایک دُبلا پتلا اور بڑی بڑی سوچتی آنکھوں والا شخص دکھائی دے گا

یہ زاہد ڈار ہے ۔ ۔ ۔

شُنید ہے کہ اُسے ایک لڑکی سے پیار ہو گیا

اُس لڑکی نے کہا ۔ ۔ ۔

زاہد، کوئی نوکری ڈھونڈو اور میرے گھر والوں سے رشتہ مانگو

زاہد نے کہا

تم کیوں نوکری نہیں ڈھونڈتیں؟

کیا تم میرے پیار میں اِتنا بھی نہیں کر سکتیں؟

ضروری تو نہیں کہ میَں ہی نوکری کروُں ۔ ۔ ۔

اُس کے ابّا لدھیانہ میں سوشلسٹ لیڈر تھے

دوسری عالمی جنگ میں

ہندوستان کے نوجوانوں کی جبری بھرتیوں کے خلاف بولنے پر

برطانوی سامراج نے قید کر دیا تھا

وُہ سنہ 1945 میں جیل ہی میں وفات پا گئے تھے

اور اُسی سال زاہد کی آپا کو فلسفے میں ایم۔ اے۔ کرنے پر

ڈیڑھ سو روپے ماہانہ کی سرکاری نوکری مِل گئ تھی

جس سے وُہ تمام بہن بھائیوں کو پالنے میں لگ گئیں

ہندوستان کے بٹوارے کے بعد

یہ کنبہ کرشن نگر لاہور میں آن بسا

زاہد نے اسلامیہ سکول سے میٹرک کر لیا

گورنمنٹ کالج میں، سنہ 1952 میں

انیس ناگی اور صفدر میر اُس کے دوست بنے

ایف۔ اے۔ کا امتحان نہ دے کر

سنہ 1954 میں زاہد گورنمنٹ کالج سے نکل آیا

گھر والوں نے بہتیری کوششیں کی

کہ زاہد کوئی کام کر لے

مظفّرگڑھ کے محکمہ خوراک میں کلرکی سے لے کر

کراچی کی شیر شاہ کالوُ نی میں دوائیاں پیَک کرنے تک

ہر جگہ وُہ زیادہ دیر نہ ٹِک سکا

آخری نوکری سے سنہ 1958 میں وُہ

بیماری کی حالت میں لاہور لَوٹا

تھک ہار کر بڑی بہن نے سمجھوتہ کر لیا ۔ ۔ ۔

جہاں بیچاری آپا والد کی وفات کے بعد سے

چھوٹے بہن بھائیوں کو پال رہی تھیں

اپنی سرکاری نوکری سے

وہیِں پلے پلائے زاہد کی بھی کفالت کرنے لگیِں ۔ ۔ ۔

زاہد کو کتابیں پڑھنے کا خبط تھا

اور اپنی ڈائری میں نظمیں لکھنے کی عادت تھی

شروع شروع میں وُہ پابند نظمیں تھیں

جو بعد میں آزاد نظمیں اور پھر نثری نظمیں بنتی چلی گئیں

سنہ 1958 سے وُہ صفدر میر کے ساتھ

پاک ٹی ہاؤس اور کافی ہاؤس جانے لگا

جہاں اُس کی دوستی انتظار حسین اور ناصر کاظمی سے ہوئی

صفدر میر نے زاہد کی ڈائری کی کچھ نظمیں

محمّد حسن عسکری کے رسالے سات رنگ میں

مادھو کے قلمی نام سے چھپوا دیِں

اُن نظموں کی دھوُم مچ گئی

ناصر کاظمی نے سب کو مادھو کی اصلیت بتا دی

پھر زاہد نے اصلی نام سے وُہ نظمیں

سویرا میں چھپوائیں

زاہد کو ہمیشہ سے عورتیں پسند تھیِں

البتّٰہ کوئی ذہنی خلفشار ۔ ۔ ۔

کوئی سب کلینکل ڈیپریشن ۔ ۔ ۔

اُسے آگے بڑھنے اور ساتھی اپنانے سے روکتا رہا

اُس لڑکی سے بات کو آگے نہ بڑھا سکنے پر

زاہد نے سنہ 1958 سے 1968 تک

دس قیمتی سال شراب نوشی کی نذر کر دیے

سنہ 1968 میں پاک ٹی ہاؤس کی ایک معروف شاعرہ

کشور ناہید اور اُن کے شوہر یوسف کامران نے

زاہد پر توجہ دینا شروع کی

یہ دونوں جب بھی رات گئے

اپنے کرشن نگر والے گھر کو جاتے ہوئے

زاہد کو نشے میں دھُت

مال روڈ پر بھٹکتا دیکھتے

تو اُسے اصرار کر کے گاڑی میں بٹھا لیتے

اپنے ساتھ گھر لے آتے اور

کھانا کھِلا کر اُس کے گھر چھوڑ آتے

کشور ناہید کی ہمدردی نے زاہد کو

شراب ترک کرنے پر راضی کر لیا

سویرا رسالے میں نظمیں چھپنے کے بعد سے

زاہد ڈار لاہور کے پرانی کتابوں کے بُک سٹالوں سے

کتابیں خرید کر پڑھتا رہا

اور اپنی ڈائری میں نظمیں لکھتا رہا

ہوتے ہوتے کرشن نگر والے گھر میں

زاہد کے کمرے میں

چھت تک کتابیں ہی کتابیں چھا گئیں

اور بڑے ہو چُکے بہن بھائیوں کے بچّے

زاہد کو میاں چچا کہہ کر پُکارنے لگے

زاہد ڈار دائروں میں گھوُمتی زندگی بسر کرتا رہا

کمرے سے پرانی کتابوں کی دکانوں تک

پھر پاک ٹی ہاؤس تک

پھر جیل روڈ پر انتظار حسین کی کوٹھی کے کتب خانے میں

پھر واپس کرشن نگر

اپنے کمرے میں اور کتابوں کے درمیان ۔ ۔ ۔

اُس نے لکھا تھا ۔ ۔ ۔

بے زاری کی اِنتہا اور خوشی کی اِنتہا

ہر طرف دائرے ہی دائرے ہیں

حقیقت دائروں کے سِوا اور کچھ بھی نہیں

نہ ہونے سے ۔ ۔ ۔ نہ ہونے تک

یہ ایک دائرہ ہے

درمیان میں موجودگی ہے

اور وُہ ایک خلاء ہے ۔ ۔ ۔

اب میَں اپنے خوابوں کے سہارے زندہ ہوُ ں

کچھ دیر پہلے میَں زندہ تھا

یا شاید یہ بھی ایک خواب ہے ۔ ۔ ۔

مارچ 21 سنہ 2022 ٹورونٹو میں ، زاہد ڈار کے گزر جانے کے ایک سال بعد لکھی گئی۔

حوالہ جات: جولائی سنہ 2009 میں جنگ کے انگریزی ایڈیشن میں چھپا فرح ضیاء صاحبہ کا زاہد ڈار سے لیا آخیری انٹرویو جو کہ انتظار حسین کی جیل روڈ پر واقع رہائش گاہ کے کتب خانے میں لیا گیا۔

زاہد ڈار کی نظم دائرہ میں سے منتخب سطور، صفحہ 13 مجموعہ تنہائی، سنگ ِ میل پبلی کیشنز، اشاعت سنہ 1988، لاہور، پاکستان۔

ذمہ دار پاکستانی ناشروں سے استدعا ہے کہ زاہد ڈار کی ڈائریوں کو اُن کے اہل ِ خانہ سے حاصل کریں اور اُن میں درج نظموں کو شائع کروائیں ، اردو ای۔بُک کی صورت میں بیچیں اور جدید اُردوُ شاعری پر تحقیق کرنے والے ایم۔ اے۔ ایم۔ فِل اور پی۔ ایچ۔ڈی کے طلباء کے لیے اور دیگر قارئین کے لیے مہیّا کریں۔ اگر اورئینٹل کالج لاہور، پاکستان کی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اُردوُ کے صدوُر، پاکستان میں اردو ادب کے ٹھیکیدار وفاقی اور صوبائی اداروں اور کشور ناہید صاحبہ کو احساس ہو جائے تو زاہد ڈار کی غیر مطبوعہ شاعری کو ایک جامع کُلّیات کی صورت میں شائع کر وانے کے لیے تگ و دو کریں۔ وگرنہ پہلے کی طرح ہر سال شہر شہر لٹریری فیسٹیول اور بُک فئیر لگوانے، اِن میں شمولیت والی اپنی وڈیوز کو وائرل کروانے اور محلّوں میں خانہ دار خواتین کی ڈالی ہوئی بچت کمیٹیوں کی طرح کمیٹیاں ڈال ڈال کر اپنے اپنے ادبی دھڑوں اور ادبی مافیا گروہوں کے مشاعرے کروانے کا سلسلہ جاری رکھیں۔ وَ ما علینا الاالبلاغ ۔