اور بارشوں کے دن ہیں ۔ ۔ ۔ طلعت افروز کی نظم And these are days of rain . . . poem by Talat Afroze

And these are days of rain . . .
by Talat Afroze

And these are days of rain . . .
Raindrops of memories
Pelting down upon me
This pitter-patter of droplets
Arouses . . .
An ancient, sombre tune . . .
Which pulsates within me . . .

On the brick floor
Of that street from long ago
Children jump up and down in the rain
Splish-splash . . . splish-splash they go!
The rooftops and “rain rooms”
Of red brick houses
Get drenched . . . on and on . . . in the falling rain
For days and days . . .

Raindrops falling ceaselessly
On rooftops and eaves jutting above windows
Set off a song of dark, deep notes
The pigeons huddled on the window eaves
Listen quietly to it . . .

Rain soaked rooftops
Enveloped in a grey shawl
Stretching away on all sides
Lost in a trance . . .

And the city I was separated from
Dissolves away
In a mist of clouds
What hope still compels my heart
To go on shedding tears like this . . .

And these are days of rain . . .

Notes:
In Western countries, rain is associated with sadness and is considered to be a cause of ruined picnics. However, growing up in the central plains of Punjab, Pakistan, the Monsoon Rains (July-August) were always associated with joy, with picnics (!!), putting up swings under Mango trees in the parks and a feeling of love and romance being in the air . . .

I grew up in Lahore which is a dry weather city most of the year . . . 40 inches of rainfall per year for Lahore all crowded into the July-August Monsoon Rainy season compared to 450 inches per year in Cherrapunji, India . . . so the Monsoon Rains were always a happy time for us boys . . . we would run up to our rooftop in our shorts alone and revel in the rain pelting down on our bodies . . .

Gradually though, as I grew up, the long Monsoon Rains which continued for 2 to 3 days non-stop at a time through July and August every year came to be associated with a feeling of sadness and indescribable nostalgia . . . this mood swing was very subtle and came with adolescence and has stayed ever since . . .

Pakistani houses in the Punjab have a flat slab of concrete jutting above each window to protect the window and the room from rainwater . . . one can call it a window eave . . . chajjaa is the Urdu word for these window eaves. Pigeons often huddle on these window eaves at all times of the day.

Pakistani houses in the Punjab have a small room on the rooftop which is meant as an attic for storing quilts, winter clothing, old books, old letters, photo albums etc. Such a rooftop room is called a Rain Room presumably because one can store things away from the rain in it . . . the room protects things from rain damage . . . the Urdu word is Barsaatee . . . Barsaat means Rain.

Rag Sabha: An Urdu Short Story by Talat Afroze

راگ سبھا

طلعت افروز

میَں جو تیری راگ سبھا میں راس رچانے آیا تھا

دِل کی چھنکتی جھانجھن تیری پازیبوں میں ٹانک چُکا

مجید امجد

گیت شروع ہونے ہی والا تھا ۔ ۔ ۔ سٹیج پر پس منظر میں کالے پردے لٹکے ہوئے تھے، آرکیسٹرا کے ساز بجانے والوں نے اور اُن سب کے سرخیل آرکیسٹرا کنڈکٹر نے سیاہ بُش شرٹ اور سیاہ پتلوُنیں پہن رکّھی تھیں ۔ ۔ ۔ صرف وڈیو کیمرہ مین اور سنتھے سائزر بجانے والے صاحب اپنے کپڑوں میں آئے ہوئے تھے۔ کورس سنگرز نے شوخ، بھڑکیلے لباس اور شو کے میزبان نے ایک چمک دار گہرا نیلا مُغلئی کُرتا پہنا ہؤا تھا اور یہ سب لو گ سٹیج پر پیچھے کی طرف سازندوں کی آخری قطار کے ساتھ کُرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ سٹیج کے درمیان میں، سب سے آگے، ایک انکل اور ایک جوان گلوُکارہ کھڑے تھے۔ انکل نے گیت شروع کیا جو کہ بمبئی سینما کے سنہرے دوَ ر کا، مکیش اور شاردا کا گایا ہؤا، ایک مقبول روُمانوی گیت تھا ۔ ۔ ۔

چلے جانا، ذرا ٹھہرو، کسی کا دَم نکلتا ہے ۔ ۔ ۔

انکل کی آواز میں اُن کے جوانی یا کالج کے دنوں والا طنطنہ بہت حد تک ابھی باقی تھا ۔ وُہ خوش قسمت تھے کہ اُن کے بال ابھی تک بھرپور طور پر برقرار تھے جنہیں وُہ سمارٹ سٹائل میں کٹوا کر مناسب حد تک کالا رنگ دیے ہوئے تھے۔ لڑکی کے ہاتھ میں شادی کی انگوٹھی نمایاں تھی ، شکل کچھ کچھ روُ نا لیلا سے مِلتی تھی اور آواز تو بالکل عین مین شاردا جیسی تھی۔

ہال تقریباً آدھا بھرا ہؤا تھا اور پوری پوری فیمیلیز آئی ہوئیں تھیں۔ اوپر گیلری میں بھی لوگ بیٹھے تھے۔ ایک دو وڈیو کیمر ے کرین پر بھی لگائے گئے تھے جو سٹیج کے سازندوں، کورس سنگرز اور ہال میں بیٹھے چھوٹے بڑوں کے اوپر سے اور چہروں کے برابر سے گرزتے ہوئے وڈیو شاٹ بناتے جا رہے تھے ۔ ۔ ۔ پچھلی نشستوں پر بیٹھے لوگوں میں کچھ عورتیں گیت کے بولوں کو خود بھی گا رہی تھیں جب کہ مرد ہاتھ اُٹھا کر داد دے رہے تھے ۔ ایک بیوی گا رہی تھی اور اُس کا شوہر اپنے موبائیل فون میں کچھ پڑھ رہا تھا۔ ایک عورت کے ننھے مُنّے کا نیپی بدلنے کا وقت ہو گیا تھا اور وُہ سیٹ سے اُٹھ کر اور بچے کو سیٹ پر لِٹا کر یہ فرض پورا کر رہی تھی ۔ پیچھے کی کچھ سیٹوں پر تین بچّے بیٹھے آگے بیٹھے لوگوں پر چُپکے چُپکے ہنس رہے تھے۔ جب کیمرہ اُن کی طرف بڑھا تو بڑی بہن نے سب کو خبردار کر دیا اور وُہ تینوں سپاٹ چہرے بنا کر آگے کو دیکھنے لگے۔

اَستائی کے دوران کیمرہ آرکیسٹرا کی طرف گھوُما ۔ ۔ ۔ کنڈکٹر اپنی چھڑی کو گیت کی تال پر لہرا رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ بونگو ڈرمز اور الیکٹرانک ڈرم پیڈ والے سازندے کے قریب کھڑے ہو کر اُنہیں گیت کے بولوں کی مناسبت سے کوئی مزاحیہ واقعہ بھی سُناتے جا رہے تھے جس پر بونگو ڈرمز والا سازندہ ہنسنے لگا تھا ۔ ۔ ۔ آرکیسٹرا کی اندرونی زندگی گیت سے جُدا ہوتی ہے ۔ ۔ ۔

گیت کا مُکھڑا/اَستائی ختم ہوئی۔ الیکٹرک آرگن/سنتھے سائزر پر بیٹھے سفید خشخشی ڈاڑھی والے صاحب بین کالر والے بھوُرے کرُتے اور سلیٹی واسکٹ کے ساتھ ساتھ مغربی فیشن والے چھوٹے ہیٹ میں، جو شو بِز کے لوگوں میں مقبول ہے، سج رہے تھے۔ اُنہوں نے سنتھے سائزر کی ایک کَل دبائی اور گیت کے اَنترے کے شروع ہونے سے پہلے اُن کے ساز میں سے جل ترنگ کی آواز میں سُر نکلنے لگے ۔ ۔ ۔

اُن لوگوں کی وڈیو بھی بنائی جا رہی تھی جو سب سے آگے کی نشستوں پر براجمان تھے۔کیمرہ اگلی قطار کے پاس سے گزرا۔ کیمرے کی موجودگی میں گیت پر کوئی تاءثر دینے سے پہلے پینتس /چالیس سالہ بیوی نے ساتھ بیٹھے خاوند پر نگاہ ڈالی ۔ ۔ ۔ جب شوہر کے چہرے پر سنجیدگی دیکھی تو بیگم نے بھی پکّا سا منہ بنا لیا۔ یہ سب ایک دو سیکنڈ میں ہو گیا۔ ہائے شادی میں بیتے سالوں کی دی ہوئی ٹریننگ ۔ ۔ ۔

اِس جوڑے کے ساتھ ہی وڈیو کیمرے کو دو ساٹھ/پینسٹھ سالہ بہنیں بیٹھیں نظر آئیں جن میں سے ایک گیت میں کھوئی ہوئی تھی جب کہ دوُسری اپنی بہن کو طنز اور غُصّے سے گھوُ رے جا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اُسے کیمرے کی موجودگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی ۔ ۔ ۔ دونوں بہنیں بُڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر زمانے سے بے پرواہ ہو چُکی تھیں۔ اُن دونوں کی زندگی دیکھتے ہی دیکھتے اُن کی آنکھوں کے سامنے سے گرز کر اور دوُر کوئی موڑ مُڑ کر آنکھوں سے اوجھل ہو چکی تھی ۔ وُہ دونوں سماج کے ہتھکنڈوں کے ہانکے میں آئی ہوئی اور مصلحتوں کی بیڑیوں میں بندھی بندھی اب آخیر میں زندگی کے سُنسان، ویران صحن میں اپنے آپ کو پاتی تھیں۔ شاید مزید اداکاری کرتے رہنا اب اُن کے بس سے باہر تھا۔ وُہ گھوُرتی ہوئی نظریں اپنی بہن کے جوانی میں کیے گئے کسی فیصلے پر آج پھر اُس سے ناراض نظر آ رہی تھیں ۔ ۔ ۔ یہ گیت سُننے پر وُہ نگاہیں بہناپے کے بخشے ذاتی رازوں کے عِلم کے بل بوُتے پر آج پھر ایک پُرانا زہریلا تبصرہ دُہرا رہی تھیں ۔ ۔ ۔

کرین شوَٹ کیمرہ گُلوکاروں کے پیچھے چلا گیا تاکہ ہال میں بیٹھے لوگوں کی وڈیو بنائے۔ پہلی قطار کے صوفوں پر سفید غلاف چڑھے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔ درمیانی صوفے پر ایک تیس/پینتیس سالہ خوبصورت عورت نارنجی ساڑھی پہنے ہوئے، اپنے سَر کو غروُ ر سے ذرا سا ٹیڑھا کیے ہوئے، جوان گلوُکارہ کو ایک خفیف زہریلی مُسکراہٹ کے ساتھ دیکھے جا رہی تھی۔ وُہ صوفے پر بڑے اعتماد سے بیٹھی ہوئی تھی۔ جو دو مرد اُسی صوفے پر بیٹھے تھے وُہ اُس سے کچھ مرعوُب نظر آ رہے تھے اور صوفے پر جگہ ہونے کے باوجود اُس عورت سے ذرا ہٹ کر صوفے کے دوسرے سِرے پر بیٹھے تھے اور کبھی کبھی کنکھیوں سے اُسے دیکھ لیتے تھے۔ جب کرین کیمرہ پہلی قطار کے سامنے سے گُزرنے لگا تو اُس وقت بھی اُس کی نگاہوں کی ٹکٹکی نہ ٹوُٹی اور وُہی حقارت بھری مُسکان اُس کے لبوں پر موجود رہی۔ وڈیو کیمرہ اُس کے بالکل سامنے آ گیا تو اُس کی پُشت پر اُس کے نام کے آخری حُروُف سفید غلاف پر چھَپے ہوئے دکھائی دیے ۔ ۔ ۔کسی این۔ جی۔ او۔ کی اُس چئیر پرسن نے ایک طنز بھری اُچٹتی نظر کیمرے پر ڈالی اور پھر سے نظروں کی بندوق گُلوکارہ پر تان لی ۔ ۔ ۔ شاید کسی سہیلی نے اُس گلوُکارہ کے بارے میں اُسے کوئی خطرے کی گھنٹی سُنائی تھی جس کو بہ ذات ِ خود سُننے کے لیے وُہ اِس محفل میں آئی تھی ۔

وڈیو کیمرہ پھر اگلی قطار کے ایک سِرے پر پہنچ چُکا تھا۔ یہاں آگے کے صوفوں والی صف اور پیچھے دوُسری قطار میں بیٹھے کچھ لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو کر گیت میں محو تھے۔ یہ دو اُدھیڑ عمر شادی شُدہ جوڑے تھے اور مِڈل کلاس کے پروفیشنل لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ دونوں بیویاں پڑھی لکھی اور اچھے عہدوں پر ملازمت کرنے والی عورتیں لگ رہی تھیں اور اپنے شوہروں کے ساتھ برابری کے انداز میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اور لگتا تھا جیسے وُہ دو بھائی اور اُن کی بیویاں ہوں۔ جب گیت کے آخری انترے کے وُہ بول آئے جن میں اپنائیت اور سپُردگی بسی ہوئی تھی تو یہ چاروں بیاہتا لوگ ایک ساتھ سَر ہلانے لگے اور لگا جیسے یہ چاروں اپنے گھر کی بیٹھک یا بڑے کمرے میں اکٹھے بیٹھے گیت سُن رہے ہوں۔ وُہ ہال سے اور ہال میں موجود دوسرے لوگوں سے بے نیاز ہو کر گیت میں ڈوبے ہوئے تھے۔ بڑے بھیّا گیت کی لَے کے ساتھ وَجد میں ہاتھ لہرا رہے تھے ۔ ۔ ۔ اُن کی آنکھیں کچھ کچھ بھیگی ہوئی تھیں۔ چھوٹے بھائی کے چہرے پر ایک لطیف مُسکراہٹ تھی جب کہ اُن کی بیگم کا چہرہ سنجیدہ تھا اور دونوں میاں بیوی سُروں کے ساتھ جھوُم رہے تھے۔ اُن کی بھابھی ٹانگ پہ ٹانگ اور ہاتھ پہ ہاتھ رکھّے بیٹھی تھیں لیکن سٹیج کی سمت دیکھتے ہوئے بھی اُن کی آنکھیں دوُر کسی سوچ پہ مرکوُز تھیں اور وُہ ہَولے ہَولے ہتھیلی سے دوسرے ہاتھ کی پُشت کو تھپتھپاتے ہوئے جیسے اپنے آپ کو کچھ سمجھا رہی تھیں ۔