سارا شگفتہ سنہ 1954 میں پنجاب کے شہر گُجرانوالہ میں ایک مفلس اور ان پڑھ کوچوان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔باپ چھوڑ کر چلا گیا۔ اُن کی والدہ گجرانوالہ سے بچوں کو لے کراچی آن بسیں۔ کنبے کی غربت کے باعث سارا صرف آٹھویں جماعت تک پڑھ سکیں تھیں کہ سنہ 1968 میں مفلسی کے ہاتھوں مجبور والدہ نے چودہ سالہ سارا کی شادی کر دی۔ سارا کا پہلا خاوند سارا کو شدید گھریلو تشدّد کا نشانہ بناتا تھا۔ اِس شادی سے سارا کے تین بچے ہوئے ۔سارا نے شوہر کی آئے دن کی مار کے باوجود نویں جماعت کا امتحان دیا اور غالباً میٹرک بھی پاس کر لیا۔ ایک دن سارا کو خبر مِلی کہ اُس کے والد چل بسے ہیں۔ وُہ باپ کی وفات پر آخری رسوُمات کے لیے جانا چاہتی تھی مگر جابر شوہر نے انکار کیا اور سارا کے اصرار پر اُسے اِس بےدردی سے پائپ سے پیٹا کہ سارا بے ہوش ہو گئی۔ رات کو ہوش آیا تو دیوار پھلانگ کر باپ کی میت دیکھنے چلی گئی۔ واپس آئی تو شوہر نے پھر پائپ سے پیٹا۔ ایک رات کو گھر میں شور مچا اور سارا کا شوہر سارا کی بھانجی کے بستر پر پایا گیا اور سارا نے بہ مشکل بھانجی کی عصمت بچائی۔ تنگ آ کر سارا نے اُس سے طلاق لے لی اورسارا کا پہلا شوہر تینوں بچوں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ طلاق پر سارا کو حق مہر بھی ادا نہیں کیا گیا۔ سارا نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا اور بچوں کو واپس لینے میں کامیاب ہوئی۔ بعد ازاں شوہر واپس آیا، قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم کھائی کہ وُہ بچوں کو کچھ دنوں کے لیے لے جانے آیا ہے اور پھر واپس چھوڑ جائے گا۔ وہ بچوں کے لے گیا ۔ جب بچے واپس نہ آئے تو سارا میانوالی گئی اور سابقہ شوہر سے بچوں کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا ۔ سابقہ شوہر نے اپنے بھائی بندوں سے مِل کر اُس پر گولی چلوا دی اور سارا نے ایک فوجی افسر کی مدد سے اپنی جان بچائی۔ اُس کے بعد سے سارا نے اپنے بچوں کی شکل نہ دیکھی اور اپنے تین بچوں سے جدائی کی اذیت تمام عمر سہتی رہی۔
سنہ 1970 کی دہائی میں سارا نے کراچی میں محکمہ بہبود آبادی اور خاندانی منصوبہ بندی میں نوکری کر لی۔ ایک نوجوان شاعر نے بھی اُن دنوں اُسی محکمے میں نوکری شروع کی اور اِس طرح سارا اور شاعر کی ایک دوسرے سے جان پہچان شروع ہوئی۔ اب سارا کی رسائی کراچی کے اردو ادبی حلقوں تک ہو گئی جن میں ریڈیو پروڈیوسر اور نثری نظم کے ادبی گروہ کے لوگ بھی شامل تھے۔خاندانی منصوبہ بندی محکمے میں نوکری شروع کرنے اور سارا سے مِلنے سے پہلے اُس نوجوان شاعر کی زندگی ابتدائے جوانی کی بغاوت کا ایک دوَر تھا۔ اِس میں اُنہوں نے اپنے گھر کو خیرباد کہہ کر خانہ بدوشی اختیار کی۔ اُن دنوں وُہ دوستوں سے اُدھار مانگ کر گزارا کرتے تھے ۔ شاعر اور ادیب دوستوں کے گھروں میں محافل میں حصہ لیتے جہاں مشہور جدید شاعر اور کراچی کے اعلٰی ترین دانشور سلیم احمد نے اُن کی رہنمائی شروع کی ۔ وُہ نوجوان شاعر اُن دنوں باقاعدگی سےکراچی کے سلطانیہ ہوٹل میں شامیں گزارتے تھے۔
بہر حال سارا نے ادبی محفلوں میں شرکت کرنا اور شاعری میں اپنی بڑھتی ہوئی دلچسپی کو پروان چڑھانا شروع کیا۔ نوجوان شاعر نے سارا سے مِلنے سے پہلے ایک حاجی صاحب کے ہاتھ پر باقاعدہ بیعت کر لی تھی اور تصوّف کی طرف راغب ہو چکے تھے۔ حاجی صاحب کے اصرار پر رزق ِ حلال کمانے کے مجاہدے میں اُنہوں نے گیس کے سلنڈر سائیکل سے بندھی ریڑھی پر ڈھونے کی نوکری بھی کی تھی اور پھر وُہ خاندانی منصوبہ بندی والی نوکری اختیار کی تھی۔ سارا سے جان پہچان کے بعد اور شاید حاجی صاحب کی طرف سے اگلی آزمائش یعنی گھر بسانے کے تقاضے کی وجہ سےنوجوان شاعر نے سارا کو شادی کی پیش کش کی جو سارا نے قبول کر لی۔ شادی کے فوراً بعد نوجوان شاعر نے سارا سے کہا کہ چونکہ اُن کا خاندان ایک خاص تہذیب اور رکھ رکھاؤ کا قائل ہے اِس لیے اُنہیں عورت کی نوکری قابل ِ قبول نہیں ہو گی اور اِس لیے سارا کو اپنی نوکری چھوڑنا ہو گی۔ سو، سارا نے اپنے شوہر کے اصرار پر نوکری سے استعفٰے دے دیا اور ایک جھونپڑی میں شاعر شوہر کے ساتھ انتہائی مفلسی میں رہنے لگی۔
سارا کے اِس دوسرے شوہر کی دلچسپی شاعری اور اپنے ادبی دنیا کے دوستوں کے ساتھ ادبی بحث مباحثوں میں برقرار تھی اور جنون کی حد تک تھی۔ وُہ سارا کو اور حمل کے دوران سارا کے ہونے والے بچے کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کر سکے۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ زچگی کے وقت سارا اکیلی تھی اور اُس کا نو زائیدہ بیٹا کچھ منٹ زندہ رہنے اور اپنی آنکھیں کھولنے کے بعد چل بسا۔ سارا کو زچگی کے اخراجات ادا کرنے کے لیے کسی سے قرض لینا پڑا۔ بیتے کی تدفین کے لیے بھی پیسے نہیں تھے ۔ سارا نے ڈاکٹر سے منت کی کہ اِس بچے کی لاش کو خیراتی طور پر کہیں دفنانے کا بند و بست کر دے۔جیسے تیسے گھر پہنچنے پر شاعر شوہر اور اُن کے دوستوں کو مُردہ بچے کی خبر سنانے پر منڈلی میں تھوڑی دیر ایک خاموشی طاری ہوئی اور پھر سب لوگ ادبی بحث میں یوں مشغول ہو گئے جیسے کچھ ہؤا ہی نہیں۔ اُس روز سارا نے نثری نظمیں لکھ کر عورت کی مظلومیت کو بیان کرنے کا ارادہ کر لیا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا شگفتہ کی نثری نظمیں اردو کے سنجیدہ قاریوں میں مقبول ہونے لگیں۔ سارا کی نظموں کے باغی پن، مصرعوں کی کاٹ اور اُن میں موجود عورت کی آزادی کی کھنک کی بہ دولت سارا کو شہرت مِلی اور وُہ جدید شاعری کے میدان میں اپنے نوجوان شاعر شوہر کو کہیں پیچھے چھوڑ گئی۔ اِس کامیابی میں سارا کی خدا داد سمجھ بوجھ، ذہانت، سیکھنے کی صلاحیت اور شعر کے لیے موزوں طبیعت کو بہت دخل ہے۔ شاید یہی وُہ دوَر تھا جب سار ا کی دوستی اُ س وقت کی مشہور نسوانی حقوق کی علم بردار اور سندھی شاعرہ عطیہ داؤد سے اور عورتوں کی آزادی کی علم بردار جدید اُردو شاعرہ فہمیدہ ریاض سے بھی اُستوار ہو گئی۔ سارا شگفتہ کا تحریر کیا پہلا مصرعہ تھا
نابینا کی جھولی میں دو روشن آنکھیں ہوتی ہیں
سارا اور شاعر شوہر کے گھر آنے والوں میں ایک اور اُبھرتے ہوئے جدید نثری نظم نگار شاعر بھی تھے ۔ ایک روز شوہر کی عدم موجودگی میں نثری نظم نگار نے سارا سے شادی کی پیش کش کر دی جو شادی شدہ سارا نے مسترد کر دی۔ سارا نے یہ بات اپنی ایک سہیلی کو بتا دی اور پوچھنے پر یہ بھی کہہ ڈالا کہ نثری نظم نگار اُسے اچھا تو لگتا ہے مگر شادی کے نظریے سے نہیں ۔ یہ بات چھُپ نہ سکی، شاعر شوہر نے سارا سے قرآن پر ہاتھ رکھ اِس بات کی تصدیق کروائی اور وہیں سارا کو طلاق دے دی۔ نوجوان شاعر سے طلاق کے بعد ، عدت پوری ہونے پر نثری نظم نگار نے سارا سے شادی کی پیش کش دوبارہ کی جو سارا نے قبول کر لی۔ مگر شادی کے فوراً بعد ہی گھر میں ناچاقی شروع ہو گئی۔ ساس اور نند سارا کے رشتے کو قبول کرنے سے انکار کرتی تھیں۔ نثری نظم نگار کو بھی سارا کی بڑھتی مقبولیت ایک آنکھ نہ بھاتی تھی اور وُہ شدید حسد کا شکار تھا۔ وُہ سارا کو بُری طرح مارتا تھا ، اپنے جوتے پالش کرواتے ہوئے کہتا عظیم شاعرہ میرے جوتے چمکا رہی ہے، اپنے پیروں سے سارا کا جسم کُچل دیتا۔اِس دوران سارا پھر حاملہ ہو گئی۔ اُس نے اسقاط ِ حمل کا فیصلہ کیا اور دیوار پھلانگ کر اسقاط کے لئے چلی گئی۔
اِس تیسرے شوہر سے طلاق لینے کی کوششوں میں سارا کو کئی ماہ لگ گئے۔ اِس تیسرے شوہر نے اپنے غیر انسانی رویّے سے ایک دُکھی عورت کو ایک ذہنی مریضہ بنا ڈالا۔ سارا کو کئی بار ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں اُسے بجلی کے جھٹکے دیے جاتے تھے۔ نفسیاتی دباؤ یعنی ڈیپریشن کا علاج مناسب دواؤں اور سائیکو تھیراپی کے ذریعے اُس وقت کے پاکستان میں ممکن نہیں تھا۔ چناچہ سارا کو پاگلوں کے ساتھ رکھا جاتا جب کہ وُ ہ نفسیاتی دباؤ کی مریضہ تھی۔ پاگلوں کے وارڈ میں رہنے سے سارا کے مرض میں شدّت آ گئی۔ تیسرے شوہر سے طلاق لینے کے بعد اُس نے خودکُشی کی پانچ کوششیں کیں۔ اِس عرصے میں سارا کے دوسرے سابقہ شاعر شوہر کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھااور سارا اور دوسرے سابقہ شوہر کے درمیان خط و کتابت بھی رہی جس میں وُہ سابقہ شوہر اپنے رویّے پر پشیمان تھے۔
اِس کے بعدسارا نے اپنی والدہ کے کہنے پر ایک جاگیر دار سے شادی کی۔ وُہ چوتھا شوہر بھی اذیت پسند نکلا اور یوں یہ چوتھی شادی بھی ناکام رہی۔ سارا نے جاگیردار سے طلاق تو لے لی مگر وُ ہ پھر بھی سارا کے پیچھے پڑا رہا۔ جس ہسپتال میں سارا علاج کے لیے داخل تھی وُہ وہاں پہنچ گیا اور سارا کے کمرے میں داخل ہو گیا۔ سارا کو سیکیورٹی گارڈز کے ذریعے اپنا آپ بچانا پڑا۔ پھر اُس نے چالاکی سے سارا کو کسی عزیزہ کے گھر بُلوایا اور وہاں آکر چاقو سے سارا کو لہوُ لہان کر دیا۔سارا کی چیخوں کو سُن کر ہمسائے نے آکر سارا کو درندے سے بچایا۔ پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا کہ گواہ موجود نہیں ہیں۔ اِس کے بعد سے سارا کی ذہنی بیماری شدید ہوتی گئی اور اُسے شدید ڈیپریشن کے دورے پڑنے لگے جن کے زیر ِ اثر سارا نے متعدد بار اِس زندگی کو خیرباد کہنا چاہا جو کہ ڈیپریشن کے مرض میں عام طور پر ہوتا ہے۔ صحیح تشخیص اور مناسب دواؤں کے بغیر اکثر نفسیاتی دباؤ کے مریض خود کشی کر لیتے ہیں۔ اِسی دوران سارا کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور اُس کے بھائیوں نے سارا کو گھر سے نکال دیا۔
زندگی کے آخیر ی دوَر میں سارا کو ایک اچھا مرد دوست مِل گیا جس نے اُسے مالی سہارا بھی دیا اور رہنے کو ایک مکان بھی۔ کراچی کے ادبی حلقوں میں یہ ایک کھُلا راز ہے کہ سارا کےپہلے، تیسرے اور چوتھے شوہروں نے اُسے مسلسل اذیت اور گھریلو تشدّد کا نشانہ بنایا۔اِس بہیمانہ سُلوک کی وجہ سے سار ا شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئی۔ رہی سہی کسر اُس وقت پوری ہوئی جب اُس کی بےباک نظموں اور اُن میں استعمال کیے گئے الفاظ اور سارا کی آمرانہ حکومت کے خلاف لکھی گئی نظموں کی خبر جنرل ضیا ء کے مارشل لاء کے دور کی فوجی آمر حکومت کے جاسوس اداروں تک پہنچ گئی۔ یہ وُہ دوَر تھا جب پاکستان میں بحالی ِ جمہوریت کی تحریک چل رہی تھی اور سندھ میں فوجی ہیلی کوپٹروں سے سندھی عوام کو قتل کیا جا رہا تھا۔ سیاسی قیدیوں کو اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ سارا کو گرفتار کیا گیا اور لاہور قلعے کے تہہ خانوں میں بنائے گئے بدنام ترین اذیت خانے میں چالیس دنوں تک درندگی اور بہیمانہ اذیت کا نشانہ بنایا گیا جس کی شنوائی آج تک نہیں ہوئی مگر شاید روز ِ حشر ضرور ہو گی۔سارا شگفتہ اِس درندگی کے نتیجے میں شدید نفسیاتی دباؤ میں گھِر گئی۔ زندگی کے 29 سالوں میں صدیوں کی اذیت برداشت کرنے والی اُبھرتی ہوئی نسوانی حقوق کی جدید شاعرہ سارا شگفتہ نے سنہ 1984 میں ٹرین کی پٹڑی پر لیٹ کر اپنی جان قربان کر دی۔
اپنی خودکشی سے پہلے لکھے گئے ایک خط بنام عطیہ داؤد میں سارا لکھتی ہیں
عطیہ داؤد (سندھی شاعرہ) کے نام سار ا شگفتہ کا خط
—-(اصل متن میں سے کچھ کتر بیونت کے بعد)
عطیہ ۔ ۔ ۔ میَں زندگی کو اپنے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر دیتی رہی
پیاری دوست تمہیں کیا دوں۔ ۔ ۔
دیکھو ۔ ۔ ۔ میرے اسباب میں نہ روح ہے نہ کوئی بدن
میں آج اذیت میں ہوں ۔ ۔ ۔ وہ اذیت جو کنواریوں کا لازم ہے
وہ اذیت جو کہ سانپ چال بن کر میرے بدن پر رہ جائے گی ۔ ۔ ۔ وقت پہ رہ جائے گی ۔ ۔ ۔
تمہارے دل میں ایک ٹھٹھری ہوئی اور گرد آلودہ سانس کی طرح ۔ ۔ ۔
آؤ اپنی اپنی چتا کے گیت لکھیں اور آگ کو گانے دیں اپنی پوری خاموشی کے ساتھ
میں کیا ہو گئی ہوں۔ ۔ ۔
آؤ اپنے اپنے انگاروں کے بجھنے تک تو جئیں
لیکن لگتا ہے —- زندگی ہمارے کھلونے کبھی نہ توڑ سکے گی
البتہ یہ کھلونے ہمیں ضرور توڑ چکے ہیں
یہ ٹوٹے کھلونے عطیہ آدھے میرے بچوں کو اور آدھے سعید کو دے دیں
آنے والے کل میں میَں بھی بک شیلف میں تمہیں ملوں گی اور تم بھی بک شیلف میں سجی ملو گی
سارا شگفتہ
میرے ایک نوجوان فیس بُک دوست شاہد میرانی نے سندھ سے سارا کی زندگی کےکچھ واقعات کو امرتا پریتم کی کتاب ایک تھی سارا میں سے اقتباس کی صورت میں مجھ تک پہنچایا ہے :
سارا شگفتہ کے بارے میں امرتا پریتم لکھتی ہیں : ایک شام شاعر صاحب نے کہا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ پھر ایک روز ریستوراں میں ملاقات ہوئی۔ اُس نے کہا شادی کرو گی؟ دوسری ملاقات میں شادی طے ہو گئی۔ اَب قاضی کے لئے پیسے نہیں تھے۔ میں نے کہا ۔ آدھی فیس تم قرض لے لو اور آدھی فیس میں قرض لیتی ہوں۔ چونکہ گھر والے شریک نہیں ہوں گے میری طرف کے گواہ بھی لیتے آنا۔ ایک دوست سے میں نے اُدھار کپڑے مانگے اور مقررہ جگہ پر پہنچی اور نکاح ہو گیا۔ قاضی صاحب نے فیس کے علاوہ مٹھائی کا ڈبہ بھی منگوالیا تو ہمارے پاس چھ روپے بچے۔ باقی جھونپڑی پہنچتے پہنچتے ، دو روپے، بچے ۔ میں لالٹین کی روشنی میں گھونگھٹ کاڑھے بیٹھی تھی۔ شاعر نے کہا ، دو روپے ہوں گے، باہر میرے دوست بغیر کرائے کے بیٹھے ہیں۔ میں نے دو روپے دے دئے۔ پھر کہا ! ہمارے ہاں بیوی نوکری نہیں کرتی۔ نوکری سے بھی ہاتھ دھوئے۔ گھر میں روز تعلیم یافتہ شاعر اور نقاد آتے اور ایلیٹ کی طرح بولتے۔ کم از کم میرے خمیر میں علم کی وحشت تو تھی ہی لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بُھوک برداشت نہ ہوتی ۔ روز گھر میں فلسفے پکتے اور ہم منطق کھاتے۔
ایک روز جھونپڑی سے بھی نکال دیئے گئے، یہ بھی پرائی تھی۔ ایک آدھا مکان کرائے پر لے لیا۔ میں چٹائی پر لیٹی دیواریں گنِا کرتی ۔ اور اپنے جہل کا اکثر شکار رہتی۔ مجھے حمل میں ساتواں مہینہ ہؤا۔ درد شدید تھا ۔ عِلم کے غرور میں میرا مجازی خُدا آنکھ جھپکے بغیر چلا گیا۔ جب درد اور شدید ہؤا تو مالِک مکان میری چیخیں سُنتی ہوئی آئی اور مجھے ہسپتال چھوڑ آئی ۔ میرے ہاتھ میں درد اور پانچ کڑکڑاتے ہوئے نوٹ تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد لڑکا پیدا ہوا۔ سردی شدید تھی اور ایک تولیہ بھی بچے کو لپیٹنے کے لئے نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے میرے برابر اسٹریچر پر بچے کو لِٹا دیا۔ پانچ منٹ کے لئے میرے بیٹے نے آنکھیں کھولیں اور پھر کفن کمانے چلا گیا۔ ۔ ۔ بس ! جب سے میرے جسم میں میرے بیٹے کی وُہ آنکھیں بھری ہوئی ہیں۔
Sister وارڈ میں مجھے لٹا گئی۔ میں نے Sister سے کہا میں گھر جانا چاہتی ہوں کیونکہ گھر میں کسی کو عِلم نہیں کہ میں کہاں ہوں ۔ اُس نے بے باکی سے مجھے دیکھا اور کہا ، تمہارے جسم میں ویسے بھی زہر پھیلنے کا خدشہ ہے ۔ تم بستر پر رہو ۔ لیکن اب آرام تو کہیں بھی نہیں تھا۔ میرے پاس مُردہ بچہ اور پانچ رُوپے تھے۔ میں نے Sister سے کہا ، میرے لئے اب مشکل ہے ہسپتال میں رہنا۔ میرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں میں لے کر آتی ہوں، بھاگوں گی نہیں۔ تمہارے پاس میرا مُردہ بچہ امانت ہے، اور سیڑھیوں سے اُتر گئی۔ مجھے 105 ڈگری بُخار تھا۔ بس پر سوار ہوئی ، گھر پہنچی۔ میرے پستانوں سے دُودھ بہہ رہا تھا ۔میں نے وُہ دودھ گلاس میں بھر کر رکھ دیا ۔ اتنے میں شاعر اور باقی منشی حضرات تشریف لائے ۔ میَں نے شاعر سے کہا : بیٹا پیدا ہؤا تھا ، مَر گیا ہے۔ اُس نے سرسری سنا اور نقادوں کو بتایا۔ کمرے میں دو منٹ خاموشی رہی اور تیسرے منٹ گفتگو شروع ہوگئی ! فرائڈ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ راں بو کیا کہتا ہے ؟ سعدی نے کیا کہا ہے ؟ اور وارث شاہ بہت بڑا آدمی تھا ۔
یہ باتیں تو روز ہی سُنتی تھی لیکن آج لفظ کُچھ زیادہ ہی سُنائی دے رہے تھے۔ مجھے ایسا لگا ! جیسے یہ سارے بڑے لوگ تھوڑی دیر کے لئے میرے لہو میں رُکے ہوں، اور راں بو اور فرائڈ میرے رحم سے میرا بچہ نوچ رہے ہوں۔ اُس روز علم میرے گھر پہلی بار آیا تھا اور میرے لہُو میں ڈوُبا ہؤا قہقہے لگا رہا تھا ۔ میرے بیٹے کا جنم دیکھو !!! چنانچہ ایک گھنٹے کی گفتگو رہی اور خاموشی آنکھ جمائے مجھے دیکھتی رہی۔ یہ لوگ عِلم کے نالے عبُور کرتے کمرے سے جُدا ہوگئے۔ میں سیڑھیوں سے ایک چیخ کی طرح اُتری۔ اب میرے ہاتھ میں تین رُوپے تھے ۔ میں ایک دوست کے ہاں پہنچی اور تین سو روپے قرض مانگے ۔ اُس نے دے دیئے ۔ پھر اُس نے دیکھتے ہوئے کہا ! کیا تمہاری طبیعت خراب ہے ؟ میں نے کہا ، بس ذرا سا بخار ہے ، میں زیادہ دیر رُک نہیں سکتی ۔ پیسے کسی قرض خواہ کو دینے ہیں ، وہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ ہسپتال پہنچی ۔ بِل 295 روپے بنا۔ اب میرے پاس پھر مُردہ بچہ اور پانچ روپے تھے۔ میں نے ڈاکٹر سے کہا۔ آپ لوگ چندہ اکٹھا کر کے بچے کو کفن دیں، اور اِس کی قبر کہیں بھی بنا دیں۔ میں جارہی ہوں۔ میرے بیٹے کی اصل قبر تو میرے دل میں بَن چکی تھی۔
میں پھر دوہری چیخ کے ساتھ سیڑھیوں سے اُتری اور ننگے پیر سڑک پہ دوڑتی ہوئی بس میں سوار ہو گئی ۔ہسپتال کے ڈاکٹر نے مجھے جاتے ہوئے دیکھا اور سمجھا شاید صدمے کی وجہ سے میں ذہنی توازن کھو بیٹھی ہوں۔بس کنڈکٹر نے مجھ سے ٹکٹ نہیں مانگا اور لوگ بھی ایسے ہی دیکھ رہے تھے۔ میں بس سے اُتری، کنڈکٹر کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھتے ہوئے ، چل نکلی۔ گھر ؟ گھر!! گھر پہنچی۔ گلاس میں دودھ رکھا ہوا تھا۔ کفن سے بھی زیادہ اُجلا۔ میں نے اپنے دودھ کی قسم کھائی ۔ شعر میَں لکھوُں گی، شاعری میَں کروُں گی، میں شاعرہ کہلاؤں گی۔اور دودھ باسی ہونے سے پہلے ہی میں نے ایک نظم لکھ لی تھی، لیکن تیسری بات جھوٹ ہے، میں شاعرہ نہیں ہوں۔ مجھے کوئی شاعرہ نہ کہے۔ شاید میں کبھی اپنے بچے کو کفن دے سکوں۔ آج چاروں طرف سے شاعرہ! شاعرہ! کی آوازیں آتی ہیں، لیکن ابھی تک کفن کے پیسے پُورے نہیں ہوئے۔
سارا شگفتہ کی نظموں کے مجموعے
آنکھیں از سارا شگفتہ (ناشر: سعید احمد، کراچی )
نیند کا رنگ از سارا شگفتہ (ناشر: سعید احمد، کراچی )۔
مشہور پنجابی شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار محترمہ امرتا پریتم سارا کی شاعری اور اُس کی زندگی کی کہانی سے واقف تھیں اور اُنہوں نے سارا کی زندگی اور شاعری پر دو کتابیں لکھیں، ایک ہندی میں اور دوسری انگریزی میں۔
ایک تھی سارا از امرتا پریتم سنہ 1990 کتاب گھر پبلی کیشنز، نئی دہلی، بھارت۔
لائف اینڈ پوئیٹری آف سارا شگفتہ از امرتا پریتم۔ سنہ 1994، بی آر پبلشنگ کارپوریشن، دہلی، بھارت۔
پاکستان اور بھارت کے ادبی حلقوں میں سارا کی مظلومیت پر اردو ناٹک بھی تحریر کیے گئے ہیں۔
میَں ۔ ۔ ۔ سارا ! : یہ ایک اردو ڈرامہ ہے جو کہ شاہد انور نے لکھا اور سارا کی زندگی کی کہانی پرمبنی تھا۔
سارا کا سارا آسمان ایک اور اُردو کھیل جو دانش اقبال نے تحریر کیا، طارق حمید نے ہدایات دیں اور جو آل اندیا ریڈیو سے سنہ 2015 میں اردو تھیڑ فیسٹیول میں وِنگز کلچرل سوسائیٹی کی طرف سے پورے بھارت میں نشر کیا گیا۔
کراچی کے ادیب انور سین رائے سارا شگفتہ کی زندگی کے اُتار چڑھاؤ کے چشم دید گواہ رہے ہیں ۔ اُنہوں نے اپنے اردو ناول ذلّتوں کے اسیر میں سارا کی زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔
حال ہی میں آصف اکبر جے۔ نے ایک اردو افسانہ سارا کے قتل کا مقدمہ تحریر کیا ہے جس کا متن میرے ورڈ پریس بلاگ پر پڑھا جا سکتا ہے جس کا لنک یہ ہے
From Wikipedia’s article about Sara Shagufta:
Sara Shagufta (31 October 1954– 4 June 1984) was an iconic modern Urdu feminist poet belonging to Pakistan. She wrote poetry in Urdu and Punjabi languages. She was from a very poor family and her mother, out of desperation and poverty, got her married three times, starting with her first marriage at the age of 14. All of her husbands neglected her emotional needs, deprived her financially and beat her up regularly and mercilessly. She lost her first child due to malnutrition and lack of medical care since her husband was too involved in literary pursuits with his male poet friends and did not care about her pregnancy at all. Her later husbands were no different. Repeated physical assaults affected her mental state and she was admitted to a Mental Hospital where she was subjected to electric shock therapy. During the 1980s Pakistani Martial Law years of brutal military dictator General Zia ul Haque she was imprisoned for 40 days in the notorious torture center of Lahore city’s Mughal Fort dungeons. In 1984, she committed suicide by throwing herself before a passing train in Karachi.
Sara was born on 31st October 1954 in the small but well known city of Gujranwala, Pakistan in a lower-class family. Sara’s family migrated to Karachi from Punjab during the partition of India. Belonging to a poor and uneducated family, she wanted to rise socially but could not pass her High School exam.
When she was 14, her mother was forced by her poverty to get Sara married off to an abusive husband. This was later followed by a divorce and three other similarly disastrous marriages from which she had three children.
She was admitted to a mental hospital as she was suffering from mental illness due to repeated severe beatings from her various husbands and in-laws. After an unsuccessful suicide attempt, she committed suicide at an early age of 29, on 4th June 1984, around 11 PM, by throwing herself before a train passing from Drigh Colony railway crossing in Karachi.
- Sara Shagufta’s collections of poetry was published posthumously as
- Aankhein and
- Neend Ka Rang
- These two collections were published by Saeed Ahmed, a person she was in love with.
- Indian author Amrita Pritam, also a close friend of Sara, wrote two books based on the life and works of Sara; Ek Thi Sara (1990) and Life and Poetry of Sara Shagufta (1994).
- Main Sara ( I ۔ ۔ ۔ Sara . . .!), a play written by Shahid Anwar, is based on the life of Sara.[4]
- Sara Ka Sara Aasman, another play written by Danish Iqbal and directed by Tarique Hameed, is also based on the life of Sara. Based on Amrita Pritam’s books on Sara, the play was presented by Wings Cultural Society at All India Radio‘s Urdu Theatre Festival in 2015.[5][3]
-
Amṛtā Prītama (1994). Life and Poetry of Sara Shagufta. Delhi: B.R. Publishing Corporation. ISBN 978-81-7018-771-4.
-
Amrita Pritam (1990). Ek thi Sara. New Delhi: Kitabghar Publication. OCLC 33810599.
-
Asad Alvi translated her poetry into English and published as The Colour of Sleep and Other Poems (2016)
مردانہ اسلام اور مرد گزیدہ معاشرے میں یہی حال ہے، عورت کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا اس بات پر دنیا کے 95 فیصد مرد متفق ہیں کہ عورت کو صرف اور صرف مرد کے جنسی بھوک کو مٹانے کیلئے پیدا کیا گیا ہے
LikeLike
زبردست
LikeLike