A possible narrative behind Majeed Amjad’s poem “Dawaam”

مجید امجد کی نظم “دوام” کا ایک ممکنہ پس منظر
طلعت افروز

A Girl in Traditional South Asian Dress

دوام 1

دوام 12

مجید امجد کی اِس خوبصورت نظم میں شروع کی سطریں رات کے آسمان کو بیان کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ آسمان پر دکھائی دیتے ستارے دراصل وُہ دوُر دراز سورج ہیں جن کی روشنی کروڑوں نوری سالوں کا سفر طے کرتی ہوئی ہمیں اِس لمحے میں نظر آ رہی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ چناچہ مجید امجد کی نظر میں رات کا تاروں بھرا آسمان بجھتے ستاروں اور راکھ ہوتی کائناتوں کا ایک  “رُکا انبوہ” ہے ۔ ۔ ۔

نوٹ: ایک نوری سال وُہ خلائی فاصلہ ہے جو روشنی کی ایک کرن ایک سال میں طے کرتی ہے جب کہ روشنی ایک سیکنڈ میں تقریباً 3 لاکھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے

اِس بے کراں کائنات کے بُجھتے ستاروں کے رُکے انبوہ تلے دو پیار بھرے دل مِل رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ایک لڑکی ہے جو شاید مجید امجد کی گلی کے نُکّڑ والے مکان میں اپنی چچی کے ساتھ رہتی ہے اور جس کا باپ فیکڑی میں مزدوری کرنے جھنگ سے دوُر کسی جگہ ملازم ہے


حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1940 کی لکھی نظم “چچی” ص۔ 114، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

۔ ۔ ۔ یہ لڑکی شاید مجید امجد کے گھر لڑکپن سے آتی جاتی رہی ہے اور مجید امجد کی منگیتر خالہ زاد بہن کے ساتھ ایک ہی تانگے میں سکول پڑھنے بھی جاتی رہی ہے ۔ ۔ ۔  مجید امجد کی ایک غزل کا شعر ہے نا کہ


دھیان میں روز چھم چھماتا ہے
قہقہوں   سے   لدا   ہؤا   تانگہ

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1967 کی لکھی غزل ص۔ 448، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

۔ ۔ ۔ یہ لڑکی اپنے گھر کی چھت پر سرِ شام مجید امجد کا انتظار کرتی ہے اور مجید کے گلی سے گزرنے پر ایک خاموش سلام بھی اُن کی طرف بھیجا کرتی ہے

 

لو آ گئی وُہ  سرِ  بام  مسکراتی ہوئی

لیے  اُچٹتی نگاہوں میں اِک پیام ِ ِخموش

 

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1938 کی لکھی نظم “سرِ بام!” ص۔ 69، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

وُہ لڑکی مجید  امجد کی توجہ لینے کے لیے ایک آدھ کنکری بھی اُن کی طرف اُچھال دیا کرتی ہے کبھی کبھی ۔ ۔ ۔ الکھ نگری میں ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ کنکری پھینک کر نوجوان کو متوجہ کرنا سنہ 1940 کی دہائی میں پنجاب کے شہروں قصبوں میں جوان لڑکیوں کے لیے دل کی بات کہنے کا ایک ذریعہ تھا اور احمد بشیر چونکہ بہت خوبروُ تھے اِس لیے جب کرشن نگر میں الاٹ کرائے مکان سے نکلتے تھے تو جوان لڑکیاں اُنہیں متوجہ کرنے کے لیے کنکری پھینکا کرتی تھیں ۔ ۔ ۔ خیر ہم واپس مجید امجد کی طرف آتے ہیں ۔ ۔ ۔ اُس لڑکی کے پھینکے کنکر کو مجید نے اپنے دل پر محسوس کیا ۔ ۔ ۔ وُہ اپنی سنہ 1944 کی لکھی ایک نظم میں کہتے ہیں

پاؤں تو اُٹھتے ہیں لیکن آنکھ اُٹھ سکتی نہیں
جا رہا ہوُں میَں نہ جانے کس سے شرماتا ہؤا
میَں  لرز  اُٹھتا  ہوُں  کس  کی ٹکٹکی کے وہم سے؟
میَں جھجک  جاتا ہوُں  کس کے سامنے آتا ہؤا ؟

کس کا چہرہ ہے کہیِں اِن گھوُنگھٹوں کے درمیاں؟
چوُڑیوں والی کلائی ؟  جھوُمروں  والی  جبیں؟
ممٹیوں  پر سے  پھسلتا  ہی نہیں کنکر کوئی
کون ہے موجود؟  جو موجود بھی شاید نہیں

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1944 کی لکھی نظم “ایک پُر نشاط جلوس کے ساتھ” ص۔ 178، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

۔ ۔ ۔ وُہ لڑکی اپنے پیار کی ممتا بھری  نسوانیت میں اِس لانبے دُبلے نوجوان کے لیے رات گئے اپنے گھر کی گلی کے ساتھ لگتی دیوار پر گرم دوُدھ کا ایک پیالہ چپکے سے رکھ جاتی تھی کہ جب مجید رات گئے گھر آئیں تو اُن کی نظر اِس پیالے پر ضرور پڑے ۔ ۔ ۔ وُہ اپنی ایک نظم میں لکھتے ہیں

کیسے جاؤں کیسے پہنچوں یادوں کے اُس دیس
جہاں کبھی اِک آنگن کی دیوار پہ چپکے سے
دوُدھ  کا  ایک  کٹورا  رکھ  جاتے  تھے  میرے  لیے
غیبی ہاتھ ۔ ۔ ۔ جنہیں مٹّی کی تہوں نے ڈھانپ لیا

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1968 کی لکھی نظم “یادوں کا دیس” ص۔ 449، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

۔ ۔ ۔  مجید امجد اُس لڑکی سے رات کے پچھلے پہر کی چوری چھُپے کی ملاقاتوں کے بارے میں اپنی طویل  نظم   کے  شروع میں لکھتے ہیں

دیکھتے  ہو  وُہ  جو اِک  جادہ ءِ نوُرانی  ہے
وُہ جو اِک  موڑ  ہے اور  وُہ  جو  جھروکا  ہے  سرِ  بام ِ بلند
کبھی  پہنچی نہیں جس  تک سحر و شام  کے سایوں کی کمند
وُہ  جو  جھُکتی ہوئی مُڑتی ہوئی دیواریں ہیں
جن  کا منصب  اِنہیں  گلیوں  کی نگہبانی  ہے
وُہ   جو  ہر  شام   اِنہی   گلیوں  میں  کوئی   مست   سی  لَے
بند  ہوتے  ہوئے  دروازوں  کے  آہنگ  میں  گُھل  جاتی  ہے
وُہ  خموشی ،  سفر ِ شب  کے  تسلسل  کی نقیب
جس کی  میّت  پہ  اندھیروں  نے رِدا  تانی   ہے
میَں  نے  اک عُمر  اِسی  معمورہ ءِ  ظلمات میں رقصاں ، جولاں
ہر  قدم   اپنے   ہی   قدموں  کی  صداؤں  سے  گریزاں،   لرزاں
جگر  ِ  جام  سے  چھینے  ہوئے  نشوں  میں مگن
خاک اِن راہوں  کی  یوں  خاگ  بہ  سر  چھانی  ہے
جس  طرح  ایک  سہارے کی  تمنّا  میں  کسی  ٹوُٹتے  تارے کی حیات
مہ  و انجم  کے  سفینوں کی طرف  اپنے  بڑھائے ہوئے  ہات
خم  ِ  افلاک سے  ٹکرا  کے  بھسم  ہو  جائے
اِن  خلاؤں  میں کسے  تاب ِ  پر  افشانی  ہے

آج  بھی  جب  کہیِں  رستے میں، کسی موڑ،  کسی  منزل  پر
کسی دیوار  سے کنکر  بھی  پھسل  جاتا  ہے
کوئی  دامن  کہ   جسے  ناز ِ گُل  افشانی  ہے
دھوُپ  میں  سوُکھتی  خُرما  کی  چنگیروں  سے  بھرے کوٹھوں سے
ایک  پل   کے   لیے  اُڑتا   ہے ،  سمٹتا  ہے ،   تو   دھیرے   دھیرے
کوئی  لَے  سی  مِرے  احساس  میں  بھر  جاتی ہے
تار ِ  بربط     کی     کوئی     لرزش  ِ  پنہانی     ہے
جو   شب  و  روز   کے  ایواں  میں   فغاں  بن  کے  بکھر  جاتی  ہے
آسمانوں سے،  زمینوں سے کسی دل  کے  دھڑکنے  کی  صدا  آتی ہے
کوئی چپکے  سے  مِرے  کان  میں  کہہ  جاتا ہے
سُنتے ہو ،  کس  کی  یہ  آواز  ہے ،  پہچانی  ہے؟

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1954 کی لکھی طویل  نظم “نہ کوئی سلطنت ِ غم ہے نہ اقلیم ِ طرب” ص۔ 253، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

اِن لُکا چھُپی کی ملاقاتوں کے بارے میں مجید امجد لکھتے ہیں

مِری  صبح  ِ تیرہ   کی   پلکوں  پہ  آنسو
مِری  شام  ِ ویراں  کے  ہونٹوں  پہ  آہیں
مِری   آرزوُؤں   کی   معبود   تجھ   سے
فقط    اِتنا    چاہیں  ،   فقط    اِتنا   چاہیں
کہ  لٹکا  کے  اِک  بار  گردن  میں  میری
چنبیلی  کی  شاخوں  سی   لچکیلی  بانہیں
ذرا  زُلف  ِ  خوش  تاب  سے  کھیلنے  دے
جوانی  کے اِک  خواب  سے   کھیلنے  دے

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1938 کی لکھی  نظم “اَلتماس” ص۔ 70، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

مجید امجد  جھنگ سے باہر  کی  دنیا  میں  قدم  رکھنا  چاہتے  تھے مگر  یہ  پہلا  پیار  اُن  کے  پاؤں کی  زنجیر تھا۔  وُہ  اپنی ایک  اور  نظم میں لکھتے  ہیں

مجھے  آفاق  کی   پہنائیاں   آواز  دیتی  ہیں
مجھے  دنیا  کی  بزم آرائیاں  آواز  دیتی ہیں
مگر  میَں چھوڑ  کر یہ  دیس پیارا  جا نہیں سکتا
بھُلا  کر  میَں اُن آنکھوں کا اِشارہ  جا نہیں سکتا
وُہ  آنکھیں  جن  کی  اشک افشانیاں  جانے نہیں دیتیں
وُہ   جن   کی   مُلتجی   حیرانیاں   جانے   نہیں   دیتیں

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1938 کی لکھی  نظم “یہ سچ ہے” ص۔ 79، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

مجید امجد کی نظم  دوام  میں اُس لڑکی کے گھر کی گلی کی طرف  کھُلتی ایک کھڑکی خاموشی سے رات کے پچھلے پہر وا ہو جاتی ہے اور دو پیار میں جکڑی روُحیں قریب آ جاتی ہیں ۔ ۔ ۔ اِن لمحات کے بارے میں ایک اور جگہ مجید امجد لکھتے ہیں

بہشتو ،     چاندنی     راتیں     تمہاری
ہیں   رنگیں ،  نقرئی،  مخموُر ، پیاری
مگر   وُہ  رات،   وُہ   میخانہ،  وُہ دوَر
وُہ     صہبائے   محبّت     کا    چھلکنا
وُہ ہونٹوں  کی  بہم  پیوستگی  ۔ ۔ ۔ اور
دلوں   کا    ہم  نوا   ہو    کر    دھڑکنا
بہشتو ،  اُس  شب  ِ  تیرہ   پہ   صدقے
رُپہلی ،     چاندنی      راتیں    تمہاری

خدائے    وقت    توُ     ہے     جاودانی
 تِرا      ہر     سانس    روُح  ِ   زندگانی
مگر   وُہ   وقت  جب   تیرہ  خلاء  میں
ستاروں  کی   نظر   گُم   ہو   رہی  تھی
اور  اُس  دم  میری  آغوش  ِ  گنہ  میں
قیامت   کی    جوانی    سو   رہی   تھی
خدائے    وقت   اُس   وقت ِ  حسیِں   پر
تصدّق        تیری       عمر  ِ  جاودانی

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1938 کی لکھی  نظم “لمحات ِ فانی” ص۔ 65، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

کھڑکی کے چوکھٹے سے جھانکتا کوئی چہرہ کسی کے خنک ہونٹوں سے پیوست ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ لمحوں کے گزرنے کا احساس ہی نہیں رہتا ۔ ۔ ۔ دیکھتے ہی دیکھتے رات کا آخری پہربیت جاتا ہے ۔ ۔ ۔ صبح ِ کاذب دونوں دلوں کو پیار سے ہلاتی ہے اورپھر دونوں جُدا ہو جاتے ہیں ۔ ۔ ۔  اِس  جُدائی کی گھڑی کے بارے میں مجید ایک اور جگہ لکھتے ہیں

 

اب دھُندلی  پڑتی جاتی ہے تاریکی ءِ شب ، میَں جاتا ہوُں
وُہ صبح کا  تارا  اُبھرا ، وُہ  پَو پھوُٹی، اب  میَں جاتا ہوُں
جاتا  ہوُں ، اجازت!  جانے  دو ۔ ۔ ۔  وُہ دیکھو اُجالے چھانے کو ہیں
سورج   کی  سنہری  کرنوں   کے  خاموش   بُلاوے   آنے   کو  ہیں
اب  مجھ   کو  یہاں   سے  جانا  ہے!  پُر شوق   نگاہو!   مت  روکو
او   میرے   گلے  میں  لٹکی   ہوئی  لچکیلی   بانہوں !    مت  روکو
اِن    اُلجھی   اُلجھی   زُلفوں   میں   دل   اپنا    بسارے    جاتا   ہوُں
اِن  میٹھی   میٹھی   نظروں   کی   یادوں    کے   سہارے   جاتا  ہوُں
جاتا  ہوُں،  اجازت!   وُہ  دیکھو،  غُرفے  سے  شعاعیں  جھلکی ہیں
پگھلے  ہوئے  سونے  کی  لہریں  مینائے  شفق  سے   چھلکی  ہیں
کھیتوں   میں   کسی   چرواہے   نے   بنسی   کی   تان   اُڑائی    ہے
ایک   ایک   رسیلی   سُر   جس   کی   پیغام    سفر   کا    لائی    ہے
مجبور  ہوُں  میَں،  جانا  جو  ہؤا ۔ ۔ ۔  دل  مانے  نہ  مانے  جاتا  ہوُں
دنیا    کی  اندھیری   گھاٹی  میں   اب   ٹھوکریں  کھانے   جاتا   ہوُں

حوالہ: مجید امجد کی سنہ 1939 کی لکھی  نظم “صبح ِ جدائی” ص۔ 65، کلیات ِ مجید امجد، ماورا پبلشرز لاہور

اُدھر دھیرے دھیرے ایک نیا دن طلوع ہو رہا ہے، گلی جاگ رہی ہے، آنگن ہمہمانے لگے ہیں اور کوئی نیند بھرے لہجے میں رات کی تیز آندھی کا ذکر کر رہا ہے ۔ ۔ ۔

مجید امجد کی کلیات کو سنہ 1977 سے پڑھتے پڑھتے آخرکار میرے ذہن میں اُن کی ذاتی محبت کی کہانی کا ایک ممکنہ پلاٹ مرتب ہؤا جس میں اُن کی رومانی نظموں کی ایک پوری لڑی ہے جو اُن کی حدیث ِ دل بتا رہی ہے ۔ ۔ ۔ اُن کی پہلی محبت کی مکمل کہانی غالباً سنہ 2010 کے قریب پوری طرح میرے ذہن میں تشکیل پا گئی ۔ ۔ ۔ اب گاہے گاہے اِسے ایک سکرین پلے کا روُپ دے رہا ہوُں ۔ ۔ ۔ ۔ اِس سکرین پلے کے لیے مزید مواد جناب ڈاکٹر محمد زکریا کے پاس ایک رجسٹر کی شکل میں موجود ہے جس میں مجید امجد کا تمام ابتدائی کلام مجید امجد کے اپنے ہاتھوں سے درج ہے۔ سنہ 2010 سے فون کالوں اور خطوط کے ذریعے محترم ڈاکٹر زکریا سے بارہا اِس ابتدائی کلام کو چھاپنے کا مطالبہ کرتا رہا ہوُں اور وُہ ہر بار ٹال مٹول کر جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ سنہ 2015 میں اپنے سینئیر فیس بُک دوستوں سے ڈاکٹر صاحب کو سفارش کروانے کی کوشش کی مگر کسی نے اُن سے اِس بابت بات کرنے کی ہمت نہ کی۔  سنہ 2018 کی اِن گرمیوں میں پھر فون کروُں گا اُنہیں ۔ ۔ ۔ اگر مجید امجد کا وُہ ابتدائی کلام چھپ جائے تو میرے سکرین پلے کو مزید مواد حاصل ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔ اُمید پر دنیا قائم ہے ۔ ۔ ۔

Screenplay Kee Tayyaaree-07

مجید امجد کی وفات سنہ 1974 میں ہوئی اور جاوید قریشی نے جو اُس وقت ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے مجید امجد کا تمام کلام اُن کے ہاتھ سے لکھے رجسڑ، فوٹو گراف، خطوط سمیت  ساہیوال یونائٹیڈ بینک کے لاکر میں جمع کروایا تھا۔  کچھ سال بعد جاوید قریشی کی مدد سے پاکستان آرٹس کونسل نے رقم جاری کی اور افتخار جالب،عبدالرشید، فہیم جوزی،سعادت سعید اوراسرار زیدی کی رات دن کی انتھک محنت کے بعد اِس کلام کا بیشتر حصہ  ٹائپ کر کے اور کمپوز کر کے سب سے پہلی کلیات ِ مجید امجد “شب ِ رفتہ کے بعد” کے نام سے سنہ 1976 میں “تیسری دنیا کا اشاعت گھر، وسن پورہ لاہور” سے شائع ہوئی ۔ ۔ ۔ اِس کی ایک کاپی سنہ 1977 سے آج تک میرے پاس ہے۔ اِس میں اغلاط تھیں اور ڈاکٹر زکریا کی مدد سے سعادت سعید، فہیم جوزی، افتخار جالب، عبدالرشید اور اسراز زیدی  نے ایک اغلاط نامہ بھی اِس کے آخیر میں شامل کیا تھا۔ یہ پہلی کلیات اِنہیں لوگوں کی محنت کا نتیجہ تھی۔ اِس کے پیش لفظ یا عرض ِ مرتّب  میں بھی عبدالرشید نے  اُس ایک رجسٹر کا ذکر کیا ہے جس میں مجید امجد کا تمام غیر مطبوعہ ابتدائی کلام موجود ہے۔

 

Shab e Rafta Kay Baad-01

shab-e-rafta-kay-baad-02.jpg

shab-e-rafta-kay-baad-03.jpg

shab-e-rafta-kay-baad-04.jpg

پھر سنہ 1988 میں ماورا پبلشرز کے جناب خالد شریف کے اصرار پر اور ڈاکٹر زکریا صاحب کی انتھک محنت سے کلیات ِ مجید امجد شائع ہوئی۔ اِس کے پیش لفظ میں بھی ڈاکٹر زکریہ لکھتے ہیں کہ ایک رجسٹر مجید امجد کے ابتدائی غیر مطبوعہ کلام کا اُن کے پاس محفوظ ہے اور اُس میں ابتدائی نظمیں ہیں جو مجید کے بعد کے کلام کے مقابلے میں بہت ہلکی ہیں اور اُن کے شایان شان نہیں ہیں اور یہ نظمیں وُہ بعد میں کسی وقت شائع کریں گے۔

میری فون پر ڈاکٹر زکریا سے دو مرتبہ بات ہو چکی ہے اورسنہ 2015 میں ہوئی گفتگو میں اُنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وُہ رجسٹر اُن کے پاس ہے جس میں مجید امجد کا ابتدائی غیر مطبوعہ کلام درج ہے۔ اُن کے بیٹے سے بھی میری بات ہوئی ہے جو امریکہ میں رہتے ہیں اور اُنہوں نے بھی اِس ابتدائی کلام کو گھر میں محفوظ دیکھا ہؤا ہے۔ دونوں مرتبہ فون پر ڈاکٹر زکریا نے ابتدائی کلام کو آنے والے سالوں میں شائع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

میری گذارش صرف اِتنی ہے کہ مجید امجد کا ابتدائی غیر مطبوعہ کلام بھلے اُن کے بعد کے اعلٰی کلام کے مقابلے میں کم تر ہو لیکن تحقیق کرنے والوں کے لیے اہم ہے۔ میَں مجید کی زندگی پر ایک سکرین پلے لکھ رہا ہوُں اور اُس میں یہ ابتدائی کلام میری بہت مدد کر سکتا ہے چاہے وُہ نظمیں ادبی لحاظ سے بہت اعلٰی پائے کی نہ بھی ہوں۔
جو لوگ بھی یہ سطریں پڑھ رہے ہیں اور ڈاکٹر زکریا سے سفارش کر سکتے ہیں خدارا کچھ کیجیے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب تک کوئی یونیورسٹی یا کوئی ادبی لائبریری یا کوئی بڑا پبلشر یہ کلام چھاپ چکا ہوتا ۔ پاکستان میں ہمیں ڈاکٹر زکریا صاحب کی منت سماجت کرنی پڑ رہی ہے اور دیگر حضرات جنہیں میَں اپنی بپتا سُنا رہا ہوُں  وُہ اِس بات پر یقین لانے کو ہی تیار نہیں ہیں کہ کوئی ابتدائی کلام موجود ہے ۔ ۔ ۔ جائیں تو جائیں کہاں ۔ ۔ ۔

The image below shows a portion of page 34 from the Mavra 1988 edition of Kulliyaat e Majeed Amjad where Prof. Dr. Zikriya writes as follows:
سنہ 1988 میں ڈاکٹر زکریا لکھتے ہیں :
ابتدائی کلام کا بہت سا حصہ مجید امجد کے شایان ِ شان نہیں ہے اِس لیے میَں نے یہ فیصلہ کیا کہ اِس میں سے چند نظموں کا انتخاب کر کے کلیات ِ مجید امجد میں شامل کیا جائے اور باقی ماندہ کلام باقیات کے نام سے الگ چھپے۔ یہ ارادہ انشاء اللہ کبھی نہ کبھی پورا ہو گا۔

Also, both Dr. Mohammad Zikriya and his son have confirmed to me over the phone that these unpublished Early Poems of Majeed Amjad are safe with Dr. Zikriya in Lahore and will be published later on  . . .
Dr Zikriya-01

 

 

 

 

dr-zikriya-05-32mb.jpg

Dr Zikriya-04 29mb
Dr Zikriya-02a 3mb

Dr Zikriya-02b 3mb.jpg

 

 

 

 

 

 

2 thoughts on “A possible narrative behind Majeed Amjad’s poem “Dawaam”

    1. I would like you to try and contact Dr Mohd Zikriya and request him to publish the Early Poems of Majeed Amjad . . . this includes many poems describing personal events in Majeed Amjad’s life and also the Urdu Masnavi Shehr e Makkah Buton Kee Bustee Hai . . . please do this for Majeed Amjad’s sake . . . Majeed Amjad kee Khaatir . . .

      Liked by 1 person

Leave a comment