Skeena: Fauzia Rafique’s English language novel about a Pakistani Punjabi woman

FauziaRafique-2

 سکینہ 

انگریزی ناول: فوزیہ رفیق

سکینہ سنہ 2007 میں شائع ہونے والا محترمہ فوزیہ رفیق کا لکھا پہلا انگریزی ناول ہے جو امریکی الیکٹرانک کتابوں کی کمپنی اَے مَے زَون پر انگریزی ای۔ بُک کے طور پر دستیاب ہے۔ انگریزی ناول سکینہ کا پنجابی ترجمہ لاہور کے مشہور پنجابی لکھاری جناب زبیر احمد نے کیا ہے جسے امجد سلیم منہاس نے اپنے پنجابی اشاعتی ادارے “سانجھ” لاہور سے شائع کیا ہے۔

فوزیہ رفیق سنہ 1954 میں لاہور کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کی والدہ زُہرہ بیگم پنجابی میں نظمیں لکھتی تھیں ۔ فوزیہ رفیق کی زندگی پر اُن کی والدہ کا گہرا اثر رہا۔ فوزیہ رفیق نے پنجاب یونیورسٹی سے جرنلزم میں ایم۔ اے۔ کیا جس کے دوران ہی وُہ سرور سکھیر ا کے مقبول رسالے “دھنک” میں نائب مدیر کے عہدے پر فائیز ہوئیں۔ سنہ 1975 میں اُنہوں نے پاکستان ٹیلیویژن لاہور سٹوڈیوز سے الطاف فاطمہ کے اُردو ناول “دستک نہ دو” پر مبنی ایک سلسلے وار اُردوُ ڈرامے کا سکرین پلے لکھا ( 13 اقساط، 25 منٹ فی قسط)۔ سنہ 1976 میں اُنہوں نے پاکستان ٹی۔وی۔ پر ایک اُردو سلسلہ وار ڈرامہ “آپے رانجھا ہوئی” (14 اقساط، 55 منٹ فی قسط) کا سکرین پلے لکھا جو فیودر دوستویفسکی کے روُسی زبان کے سنہ 1846 کے ناول “ذلّتوں کے مارے لوگ”
Poor Folk by Fyodor Dostoevsky
پر مبنی تھا۔ یہ کھیل پاکستان بھر میں بے حد مقبول ہؤا ۔ سنہ 1985 میں اُنہوں نے کوئٹہ ٹی۔وی۔ سے ایک بھکارن کی زندگی پر مبنی ایک اردو ناٹک بھی لکھا۔ بعد ازاں برطانیہ میں جنوب ایشیائی سیاسیات میں مزید تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1986 میں رفیوجی کے طور پر کینیڈا آئیں جہاں اب وُہ بطور کینیڈین شہری کے برٹش کولمبیا صوُبے کے شہر سرے میں اپنے بیٹے اور دو بیٹیوں کے نزدیک رہائش پذیر ہیں۔ فوزیہ رفیق نے ایک انگریزی نظموں (آزاد نظم) کا مجموعہ اور ایک انگریزی ناول صاحباں کی مہمات
The Adventures of Sahebaan
بھی شائع کیا ہے اور انٹر نیٹ پر بلوگ پوسٹوں کی مشہور کمپنی ورڈپریس کی ممبرشپ کے ذریعے وُہ ایک انگریزی زبان کا بلوگ “گنڈھولی” بھی چلاتی ہیں۔

فوزیہ رفیق کا ناول سکینہ پاکستانی پنجاب کے ایک گاؤں میں جنم لینے والی ایک لڑکی کی جیون کتھا ہے۔ اِس کا مرکزی کردار سکینہ ہے جو ایک متموّل زمیندار (جسے وُہ “بھا ء “ کے نام سے بُلاتی ہے) کی چھوٹی بہن ہے۔ ناول کی ابتداء سنہ 1971 کی پاک بھارت جنگ کے دنوں سے ہوتی ہے۔ اُن دنوں سکینہ گاؤں میں اپنی ماں اور بھاء کی کڑی نگرانی میں لکھنا پڑھنا سیکھ رہی ہے۔ ناول کا پلاٹ آگے بڑھتا ہے اور قاری کو سکینہ ایک نوجوان کالج طالبہ بنی اِچھرہ کے علاقے شاہ جمال کی ایک کوٹھی میں نظر آتی ہے۔ یہ ضیاءالحق کے مارشل لاء کا دوَر ہے جب یہ آمر جرنیل پاکستان پر اپنی آہنی گرفت قائم کر چکا تھا۔ ناول کے تیسرے حصے میں سکینہ شادی کے بعد کینیڈا کے شہر ٹورونٹو چلی جاتی ہے جہاں وُہ ایک میڈیکل ڈاکٹر کی بیوی بن کر ایک دہائی کا عرصہ گزارتی ہے۔ ناول کے آخری حصے میں سنہ 2001 کے نائین الیون کے دہشت گرد حملوں کے بعد کینیڈ ا میں سکینہ کی زندگی تیزی سے تبدیل ہوتی ہے اور وُہ ایک شدید ذاتی بحران میں گھِر جاتی ہے ۔ ذات کے اِس بحران کے بھنور میں گھری سکینہ کی زندگی کے اِس اہم موڑ پر ناول ختم ہو جاتا ہے۔

فوزیہ رفیق کے اِس پہلے ناول کا لہجہ دھیما اور مشاہدانہ ہے لیکن کہیں کہیں ، واقعات کی مناسبت سے اِس میں ڈرامائی شدّت بھی آ جاتی ہے ۔ فوزیہ رفیق نے سکینہ کی کہانی بغیر لگی لپٹی رکھے نہایت صراحت سے بیان کی ہے اور ناول میں حقیقت پسندی کا رنگ نمایا ں رکھا ہے۔ اگر مجھے کوئی اعتراض ہے تو صرف اِس ناول کے اخیری واقعات، خصوصاً ایک اہم کردار کے ڈرامائی طور پر مذہب تبدیل کرنے کے حوالے سے ہے۔ بہ طور مجموعی اِس ناول کا تین چوتھائی متن نہایت عمدہ ہے اور پڑھنے والے کو سکینہ کی زندگی کے بدلتے ہوئے حالات میں محو رکھتا ہے۔ نیچے میَں نے اِس ناول پر اپنا تفصیلی تجزیہ رقم کیا ہے ۔

امریکہ کے جنوب میں واقع شہر برمنگھم کی یونیورسٹی آف اَیلابیَما میں خزاں کی تیز اور سرد ہوا خشک پتّوں کو سٹوڈنٹ سینٹر کی سُرخ اینٹوں والی دیواروں کے کونوں میں گول گول گھما رہی تھی اور شام کی نیلگوں سیاہی ہولے ہولے پھیلتی جا رہی تھی۔ ہم چار لوگ فلم دیکھنے اپنے اپنے سٹوڈنٹ اپارٹمنٹوں سے نکل کر ٹہلتے ہوئے یونیورسٹی کے خوبصورت سینما ہال کی طرف جا رہے تھے۔ بِندوُ میری پی۔ایچ۔ڈی کلاس کی ہم جماعت لڑکی دہلی کے ایک پنجابی ہِندوُ گھرانے سے تھی، شکیل سری نگر کا رہنے والا ایک ڈاکٹر تھا، ناصر کے والد دہلی میں دندان ساز تھے اور میَں لاہور سے تھا ۔

سنہ 1987 کی اُس شام ہم نے فرانسیسی ہدائیت کار ہ اَیگنیس واردہ کی بنائی آرٹ فلم ویگا بونڈ (آوارہ ) دیکھی جس کا مرکزی کردار ’’مونا ‘‘ ایک ایسی عورت ہے جو کچھ دیر ایک فرم میں سیکرٹری رہنے کے بعد جنسی ہراس کا نشانہ بنتی ہے، شدید ڈیپریشن (نفسیاتی دباؤ) کا شکار ہوتی ہے اور فرانس کے قصبوں اور دیہاتوں میں دَر بہ دَر پھر رہی ہے ۔ سینما ہال سے نکلتے ہی ہم سب میں بحث چھِڑ گئی ۔ آدھے لوگ کہہ رہے تھے کہ ’’مونا‘‘ نے جان بوجھ کر اپنے لئے آوارگی اور تنہائی کی زندگی چُنی جب کہ باقی لوگوں کا خیال تھا کہ مونا معاشرے میں کسی طرح سے فِٹ نہیں ہو سکتی تھی۔ و ُہ اپنی مرضی کی زندگی بِتانا چاہتی تھی جب کہ معاشرہ اُسے استعمال کرنے کے درپے تھا۔ چاہے وُہ بیوی کے روپ میں رہتی چاہے کسی زرعی فارم پہ ملازمت کرتی یا کسی کی گرل فرینڈ بن کر رہتی ۔ ۔ ۔ وُہ ہر حال میں استحصال کا شکار ہوتی۔ ہم لوگوں نے خوب جذباتی ہو کر بحث کی جیسے کہ عام طور پر سٹوڈنٹ کرتے ہیں اور پھر سب واپس بِندوُ کے اپارٹمنٹ میں چلے آئے جہاں اُس نے ہمارے لئے دال چاول بنائے۔ ایگنیس واردہ کی وُہ فلم دیکھنے کے بعد مجھ پر کئی دنوں تک اُس کردار مونا کا اثر رہا۔

اَیگنیس واردہ کی وُہ فلم ’’ویگابونڈ ‘‘ دیکھے ہوئے زمانے گزر گئے ہیں۔ اب تو ناصر نیویورک میں رہتا ہے، شکیل ایم۔ ایس۔ سی۔ کرنے کے بعد واپس اپنی بیگم کے پاس ڈالٹن ، جورجیہ چلا گیا ہے اور  بِندوُ اپنے میاں مِشرا صاحب کے ساتھ سنسناٹی ، اوہائیو میں آباد ہے جب کہ میَں اب ٹورونٹو میں رہتا ہوُں۔ ایک روز انٹرنیٹ پر مختلف بلاگ ڈھونڈھتے ہوئے محترمہ فوزیہ رفیق کا بلوگ گنڈھولی نظر آ گیا جس سے اُن کے انگریزی ناول ’’سکینہ ‘‘ کے بارے میں پتہ چلا۔ فوراً انٹرنیٹ پر کتابوں کی کمپنی اَے مَےزَون سے ’’سکینہ ‘‘ بطور ای۔بُک خریدا جو کہ چند سیکنڈوں میں میرے کِنڈل رِیڈر میں منتقل ہو گیا اور مَیں سکینہ کی کہانی میں کھو گیا۔ سکینہ کی کتھا پڑھنے پر مجھے واردہ کی فلم ’’ویگابونڈ ‘‘ پھر سے یاد آ گئی ہے

فوزیہ رفیق کے اِس انگریزی ناول کی ابتدأ میں سکینہ ایک چھوٹی لڑکی ہے جو اپنی والدہ (ماں جی ) اور بڑے بھائی ( بھا ء ) کے ساتھ لاہور کے قریب ایک گاؤں میں رہتی ہے۔ بھا ٔ کی زمینوں پر ساٹھ گھرانوں کے مزارعے کام کرتے ہیں۔ بھا ء کے ایک مزارعے کی بیٹی نوُر ہے جو سکینہ کی پکّی سہیلی ہے۔ ناول کے اِس حصّے میں سکینہ کو سات سال کی عمر میں دِکھایا گیا ہے۔ اُسے گاؤں میں نوُر  کے علاوہ کسی گھر میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بھا ء اُسے کاپی پر کچھ انگریزی لفظ لکھنے کو دے جاتا ہے اور وُہ سارا دن ماں جی کے کمرے میں اپنے بستر پر بیٹھی سبق لکھتی رہتی ہے۔ ایک روز ماں جی ایک مزارعہ عورت جینو کے بازو پر زخم دیکھ کر پوچھ تاچھ کرتی ہیں اور جب اُنہیں پتہ چلتا ہے کہ عورت کے خاوند گاموُ نے اُسے پھر مارا ہے تو وُہ بھا ء سے کہہ کر گاموُ کی سب عورتوں کے سامنے پٹائی کروا دیتی ہیں۔ سکینہ سہم جاتی ہے۔

اگلے روز سکینہ ماں جی کے پاس بیٹھتی ہے اور اُن کے پاؤں دبانے لگتی ہے۔ اُس کے دل میں بہت سے سوال اُٹھ رہے ہیں جو وُہ ماں جی سے کرنا چاہتی ہے۔ وُہ ماں جی سے پوچھتی ہے کہ پِٹائی کے بعد گاموُ کو سمجھاتے ہوئے اُنہوں نے بہت سارے کام بتائے جو جینوُ اُس کے لئے کرتی ہے مگر ایک بھی کام ایسا نہیں بتایا جو گاموُ  جینوُ کے لئے کرتا ہے۔ ماں جی اُسے سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ گاموُ اپنی عورت کے لئے روٹی کماتا ہے، اُسے اولاد دیتا ہے اور اپنی عورت کی حفاظت کرتا ہے۔ سکینہ کہتی ہے کہ روٹی تو  جینوُ  بھی کماتی ہے بلکہ کھیتوں میں کام کر کے وُہ گاموُ کچھ زیادہ ہی کما لیتی ہے۔

پھر وُہ ماں جی کو یاد دلاتی ہے کہ اِس سے پہلے جب ایک دفعہ گاموُ نے  جینوُ کو مارا تھا تو ماں جی نے بھا ء کو کہا تھا کہ اگر گاموُ  باز نہ آیا تو ایک دن  جینوُ  کو جان سے ہی مار ڈالے گا۔ اِس طرح تو پھرگاموُ جینوُ کی حفاظت تو نہیں کر رہا ناں ۔ پھر وُہ ماں جی سے پوچھتی ہے کہ جب وُہ بڑی ہو جائے گی اور اُس کی شادی ہو جائے گی تو کیا اُس کا شوہر بھی اُس کو مارا پیٹا کرے گا۔ ماں جی اُس کو دلاسہ دیتی ہیں کہ خاندانی مرد ایسے نہیں ہوتے کہ اپنی بیویوں پر ہاتھ اُٹھائیں۔ سکینہ کی تسلّی نہیں ہوتی ۔ وُہ کہتی ہے کہ اُس نے ماں جی کو کہتے سُنا تھا کہ سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں !! اِس پر ماں جی چِڑ جاتی ہیں اور سکینہ کو ایسپرو اور چائے لانے کو کہتی ہیں ۔ اُنہیں سر درد شروع ہو جاتا ہے۔

فوزیہ رفیق کا ناول سکینہ اِسی طرح ایک پنجابی لڑکی کی معصوم کائنات بیان کرتے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اُن کے کہانی کہنے کے انداز میں سادگی ، بےساختہ پن اور سچّائی کی کھوج کا جذبہ نمایاں ہے ! کئی جگہ مزاح سے بھی کام لیتی ہیں اور اپنے کرداروں کی زندگیوں کو متعارف کرواتے ہوئے ہمیں مسکراہٹیں اورقہقہے دان کر جاتی ہیں۔

کہانی آگے بڑھتی ہے اور سکینہ لاہور میں شاہ جمال اور اچھرہ کے قریب ایک گھر میں منتقل ہو جاتی ہے ۔ وُہ کالج میں پڑھتی ہے۔ یہ جنرل ضیا ٔ کا دوَر ہے۔ سکینہ کو کالج کی ہاکی ٹیم کے لئے چُن لیا جاتا ہے اور امکان ہے کہ وُہ عورتوں کی قومی ٹیم کے لئے بھی چُن لی جائے گی۔ مگر عین اُس وقت جنرل ضیاء کے حکم پر عورتوں کے ہاکی ، کرکٹ وغیرہ کھیلنے پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ سکینہ قانون پڑھ کے وکیل بننا چاہتی ہے مگر ماں جی اور بھا ء سے اسلامیات ، انگریزی یا ہو م اِکنامکس پڑھوانا چاہتے ہیں ۔ سکینہ کی کالج کی سہیلی ’’رفّو ‘‘ ایک انقلابی ہے جو اپنے ہونے والے شوہر اور دیگر دوستوں کے ساتھ عام نوجوانوں میں بائیں بازو کی سیاست ، طبقاتی جنگ اور سرمایہ داری نظام کے خلاف جد و جہد کا شعور پیدا کر رہی ہے۔

سکینہ اور رفّو کی دوستی کہانی کو چند ڈرامائی موڑ دیتی ہے ۔ سکینہ خاندان کی طرف سے عتاب میں آجاتی ہے۔ اُسے واپس گاؤں بھیج دیا جاتا ہے جہاں وُہ نوُر اور گاؤں کے دوسرے لوگوں سے ملتی ہے۔ یہاں ناول ہمیں گاؤں کی ایک اور تصویر پیش کرتا ہے جہاں نوُر کا شوہر اُسے مار کر گھر سے نکال دیتا ہے، گاؤں کا مولوی دس ہزار روپے میں کراچی سے خریدی ایک بنگالن سے شادی کر لیتا ہے (جب کہ مولوی کی پہلے سے ایک بیوی موجود ہے) اور گاؤں کے لوگ مولوی کی سربراہی میں ایک ہندوُ لڑکے پر جھوُٹا الزام لگا کر اُسے جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اِتنے میں سکینہ کے گھر والے اُسے گاؤں سے واپس لاہور بُلا لیتے ہیں اور بڑی جلدی میں اُس کا رشتہ کینیڈا میں بستے ایک دوُر کے رشتہ دار کے ساتھ کر دیا جاتا ہے جو عمر میں اُس سے دس سال بڑا ہے۔ سکینہ ٹورونٹو آ جاتی ہے جہاں اُس کی ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ ناول کے اِس حصّے میں سکینہ کی ساس کا کردار بڑی محنت اور پُرکاری سے بیان کیا گیا ہے اور ذہن میں نقش ہو جاتا ہے۔ کہانی مزید چونکا دینے والے موڑ لیتی ہے ۔ دس سال گزر جاتے ہیں اور زندگی ہَولے ہَولے سکینہ کو اُس کے بدلے ہوئے حالات کے لیے تیار کرتی رہتی ہے۔

آخر کار سکینہ اپنے شوہر کے ظلم اور بے حِسی سے بھاگ کر مظلوم عورتوں کی پناہ گاہ میں چلی آتی ہے۔ طلاق لینے کے بعد ٹورونٹو چھوڑ کر کینیڈا کے ایک اور صوُبے برٹش کولمبیا میں چلی آتی ہے ۔ یہاں وُہ ایک فارم پر کھیتوں میں کام کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ناول کے اِس آخری حصے میں سکینہ کی دوستی ایک سِکھ  سے ہو جاتی ہے جو اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔ یہاں کہانی ایک اور پلٹا کھاتی ہے اور وُہ سِکھ اصل میں سکینہ کے گاؤں میں رہنے والا ایک مسلمان مزارع نکلتا ہے جس سے لڑکپن میں سکینہ کی مُڈ بھیڑ ہوئی تھی اور جو کینیڈا آنے کے بعد اب سکھ مذہب اختیار کر چکا ہوتا ہے ۔ میری رائے میں پلاٹ کا یہ موڑ نہایت مصنوعی، غیر حقیقی اور مبالغہ آمیز ہے جس کی بہ ظاہر پلاٹ میں کوئی ضرورت نظر نہیں آتی۔ میری رائے میں پلاٹ کا یہ پلٹا غیر ضروری تھا۔ کیا زندگی کی لکیر اتنی خم دار بھی ہو سکتی ہے کہ سیدھی لکیر کی بجائے ایک دائرہ بن جائے ؟ میرے خیال میں اتنی دائرئیت
circularity
اصل زندگی میں ممکن نہیں . بہر حال ، ناول سکینہ کا اختتام ایک اور ڈرامائی موڑ پر ہوتا ہے جب سنہ 2001 میں امریکہ کے مختلف شہروں (نیویارک اور واشنگٹن) پر نائین الیون (9/11) میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد سکینہ اور اُس کے دوست اُس مرد کی زندگی میں تیزی سے تبدیلیاں آتی ہیں۔ اُس وقت سکینہ ایک بہادر عورت کی طرح ایک دلیر فیصلہ کرتی ہے ۔ ناول کے اختتام پر سکینہ اندھیری رات میں درختوں کے نیچے کھڑی ہے اور اُس کے اندر کی آواز کہہ رہی ہے

میرا کوئی ماضی نہیں

میری کوئی کہانی نہیں

میرا کوئی نام نہیں

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s