ہر بار اِسی طرح سے دنیا ۔ ۔ ۔ مجید امجد کی ایک نظم
تحریر : طلعت افروز
مجید امجد میری رائے میں جدید اردو شاعری کا پہلا بڑا نام ہیں۔ مَیں اُنہیں جدید اُردو شاعری کا جدّ ِ امجد مانتا ہوُں۔ پاکستان کی ادبی فضا کچھ ایسی ہے کہ ادبی دھڑے بنے ہوئے ہیں جن کا مقصد روپیہ بنانا ہے۔ بُردباری، تحمّل، تنقید میں ایمان داری عنقا ہیں۔ چناچہ مجید امجد کے بارے میں میری اوپر دی گئی رائے سے بہت سے پاکستانی ادبی دھڑے باز اتفاق نہیں کریں گے۔ خیر مجھے اِس کی پرواہ نہیں ہے۔ جو میری “ہڈ بیتی” ہے مجید امجد کی شاعری کے توسط سے وُہ مَیں نے کہہ دی ہے۔
سنہ 1977 کی بات ہے جب لاہور میں ٹمپل روڈ پر میَں اپنے ماں باپ کے گھر میں ایک کالج طالبعلم تھا۔ مجھے گھر والوں نے دوسری منزل پر ایک الگ کمرہ دے رکھا تھا جس کی کھڑکی سے ہماری گلی کا درختوں بھرا منظر ہمیشہ نگاہوں کو تازگی بخشتا تھا۔ شرینہہ کا ایک دیو قامت درخت کھڑکی کے باہر سایہ فگن تھا جس پر طوطے، کوّے، چڑیاں شور مچاتے رہتے تھے، جس کے تنے پر گلہریاں کلیلیں کرتی تھیں اور جہاں ایک گرگٹ بھی سردیوں کی دھوپ سینکنے نکل آتا تھا۔ برساتوں میں ٹھنڈی ہوائیں شرینہہ کے پھولوں کے ریشمی لچھوں کو اُڑاتی رہتی تھیں اور گہری کالی گھٹائیں ہماری گلی پر چھائی رہتی تھیں۔
چونکہ ہمارے محلّے کے تمام مکان ایک ہندو ڈاکٹر صاحب نے آزادی سے پہلے اپنے رشتے داروں کے لیے بنوائے تھے اِس لیے سب مکان ایک ہی طرز کے تھے اور ہر مکان کی طرح میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر بھی لوہے کا بنا ہؤا ایک “اوم ” کا نشان نصب تھا جس سے منسلک ایک موٹی تار زمین میں دفن تھی تاکہ آسمانی بجلی سے بچا سکے۔ مَیں ہر روز سائیکل پر لارنس روڈ، پھر جیل روڈ اور پھر نہر والی سڑک سے ہوتے ہوئے ایف سی کالج جایا کرتا تھا اور بی۔ایس۔سی کا طالبعلم ہونے کے ناطے پریکٹیکلز ختم کر کے دوپہر تین چار بجے گھر واپس آیا کرتا تھا۔ سائیکل پر اُس روزانہ کے سفر کا حُسن آج بھی دل کو گدگداتا ہے۔ اُن دنوں مَیں اپنی ہائی سکول کی ایک ہم جماعت کے خیالوں میں گُم تھا (حالانکہ اُسے میرے اِس رُجحان کا قطعی کوئی علم نہ تھا ) اور شاعری مجھ پر نئی نئی وارد ہو رہی تھی۔ اُن دنوں ٹی۔ وی۔ پر مجید امجد کی وفات کے بعد چھپنے والی اُن کی شاعری کے مجموعے “شب ِ رفتہ کے بعد” کا بڑا چرچا تھا اور مَیں نے اپنے ابّو سے پیسے لے کر وُہ کتاب خرید لی تھی۔ یہ کتاب جلد ہی مارکیٹ سے غائب ہو گئی جیسے مجید امجد کے کسی دشمن نے ساری کاپیاں خرید کر چھُپا دی ہوں یا ضائع کر دی ہوں۔ بہر حال یہ کتاب میرے لیے جدید اردو شاعری کا ایک صحیفہ ثابت ہوئی۔
یہاں آج اپنے بلوگ پر مجید امجد کی ایک خوبصورت نظم اپ لوڈ کر رہا ہوُں تاکہ پاکستان کے نوجوان لڑکے لڑکیاں، اُبھرتے ہوئے شاعر اور ادیب ، جو شاید ابھی سکول، کولج یا یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا پھر ڈگری لے کر نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہیں مجید امجد کے فن سے روُشناس ہو سکیں۔ دعا ہے کہ مجید امجد کا فن اُن کی بھی ویسے ہی رہنمائی کر سکے جیسے بہت سال پہلے اُن کی شاعری نے میری تربیت کی تھی۔
نظم بہار
مجید امجد
ہر بار ، اِسی طرح سے دنیا
سونے کی ڈلی سے ڈھالتی ہے
سرسوں کی کلی کی زرد موُرت
تھاما ہے جسے خم ِ ہَوا نے
خم : بازوُ کا اوپر والا نصف حصّہ
(فیروز اللغات)
ہر بار ، اِسی طرح سے شاخیں
کھِلتی ہوئی کونپلیں اُٹھائے
رستوں کے سلاخچوں سے لگ کر
کیا سوچتی ہیں ۔ ۔ ۔ یہ کون جانے
ہر بار ، اِسی طرح سے بوُندیں
رنگوں بھری بدلیوں سے چَھن کر
آتی ہیں مسافتوں پہ پھیلے
تانبے کے ورق کو ٹھنٹھنانے
ہر سال ، اِسی طرح کا موسم
ہر بار، یہی مہکتی دوُری
ہر بار، یہی کٹھور آنسو
رونے کے کب آئیں گے زمانے ؟
مجید امجد، ساہیوال۔ 28 جنوری، سنہ 1961 ۔
ص ۔ 362، کلیات ِ مجید امجد، مرتب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ماورا پبلشرز، لاہور سنہ 1988۔
“رستوں کے سلاخچوں سے لگ کر”
قصبوں، دیہاتوں کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں کی سلیٹی سطحوں کو کیا خوبصورتی سے سلاخچوں سے تشبیہہ دی ہے مجید امجد نے ۔ ۔ ۔
LikeLike
“ہر بار اِسی طرح سے بوُندیں
رنگوں بھری بدلیوں سے چھَن کر
آتی ہیں مسافتیں پہ پھیلے
تانبے کے ورق کو ٹھنٹھنانے”
کھیتوں پر پھیلی پانی کی چادر پر گرتی بوندوں کی کیا عمدہ تصویر کھینچی ہے مجید امجد نے ۔ ۔ ۔ اور اِس تانبے کے ورق پر گِرتی بوندوں کے لیے “ٹھنٹھنانے” کا لفظ کیا خوب استعمال کیا ہے ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ
LikeLike
مجید امجد نظم کے باکمال شاعر تھے۔جھنگ سے ساہیوال۔۔۔!
عجیب ہی سوچوں میں گھری ہوئی شخصیت کا نام ہے
LikeLike